دنیا بھر میں کورونا وائرس کے شکار افراد کی تعداد میں اضافے اور میڈیا پر ہونے والی کوریج کے ساتھ ہی مختلف مذاہب کے رہنما اسے ’قیامت کی نشانی‘ سے بھی جوڑتے نظر آتے ہیں، مگر حقیقیت کیا ہے؟
نیا کورونا وائرس گزشتہ برس کے آخر میں چینی شہر ووہان میں سامنے آیا اور تب سے اب تک اس کا پھیلاؤ جاری ہے۔ اس وقت تک دنیا بھر میں قریب ایک لاکھ بیس ہزار افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔
مذہبی دعوے
کسی متعدی بیماری یا قدرتی آفت کو کسی آسمانی نشانی سے جوڑنا کسی ایک مذہب تک محدود نہیں ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے بھی دنیا بھر کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اور پیروکار اپنی اپنی مذہبی تاویلات کے ذریعے ایک طرف تو اس بیماری کو ‘قیامت کی نشانی‘ سے جوڑ رہے ہیں اور دوسری جانب اپنے اپنے مذہب کے درست ہونے کے دعوے بھی کر رہے ہیں۔
مسیحیت سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ بائبل میں قیامت سے قبل ایک بیماری کا ذکر ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ختم ہو جائے گا۔
ایک مسیحی ٹوئٹر صارف لکھتے ہیں کہ بائبل کے باب میتھیو میں بتا دیا گیا تھا، ”دکھ کی ابتدا ہونے کو ہے۔‘‘
ایک اور صارف ہیش ٹیگ #jesusiscoming یا یسوع مسیح آ رہے ہیں کے ساتھ لکھتے ہیں، ”آسٹریلیا کی جنگلاتی آگ، غیرعمومی جگہوں پر زلزلے، دنیا بھر میں قتل کی وارداتوں میں اضافہ، بھوک اور افلاس میں بڑھوتی۔ اور لوگ اب بھی الہامی کتاب پر ہنستے ہیں۔‘‘
دوسری جانب اسلام سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد بھی اس وائرس کے حوالے سے مختلف طرز کے دعوؤں میں مصروف ہیں۔ ایک طرف تو کئی افراد کا کہنا ہے کہ اسلام میں نماز سے قبل پانچ بار وضو کرنے کی ہدایت اصل میں صفائی کا وہ راستہ ہے، جس کے ذریعے کورونا وائرس سمیت مختلف طرز کے جراثیموں اور وائرسوں کو شکست دی جا سکتی ہے۔ یہ بات تاہم واضح رہے کہ کورونا وائرس سے متعلق ڈاکٹروں کی ہدایت ہے کہ اپنے ہاتھوں کو صابن سے اچھی طرح دھویا جائے اور فقط پانی بہانا اس سلسلے میں کافی نہیں ہو گا۔
بعض مسلم رہنماؤں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے کورونا وائرس کو ان احادیث سے بھی جوڑا جا رہا ہے، جن میں ‘قیامت سے قبل ایک بیماری‘ کا ذکر ہے۔
بعض مسلم صارفین کا کہنا ہے کہ مقدس اسلامی کتب میں قیامت کی ایک نشانی یہ بھی بتائی گئی تھی کہ خانہ کعبہ کے گرد طواف رک جائے گا۔ حالیہ واقعات کے تناظر میں یہ طواف کچھ دورانیہ کے لیے روک بھی دیا گیا تھا، کیوں کہ سعودی عرب نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خطرات کے پیش نظر ملکی اور غیرملکی افراد پر عمرے کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی تھی۔
ہندو عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد بھی کورونا وائرس سے متعلق اسی قسم کی مذہبی توجیہات پیش کر رہے ہیں۔ بھارت میں ہندو قدامت پسند سیاسی نظریات رکھنے والی سیاسی جماعت آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے سربراہ سوامی چکراپانی کا کہنا ہے کہ کورونا کوئی وائرس نہیں بلکہ غریب مخلوقات کے تحفظ کے لیے خدا کا اوتار ہے، انہوں نے کہا، ”کورونا وائرس زمین پر آیا ہے تاکہ موت کے پیغام کے ذریعے واضح کریں کہ انسان دیگر مخلوقات کو کھانا بند کریں۔‘‘
کورونا وائرس کے حوالے سے رائے پائی جاتی ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ سوامی چکراپانی مزید کہتے ہیں، ”چینی صدر شی جن پنگ کو کورونا وائرس کا ایک بت بنا کر اس سے معافی مانگنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ آئندہ وہ کسی جانور کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔‘‘
بھارتیہ جنتا پارٹی کی آسام کی ریاستی اسمبلی کی رکن سُومن ہری پریا کا کہنا ہے، ”گائے کا پیشاب اور گوبر کورونا وائرس سے تحفظ میں مددگار ہو سکتا ہے۔‘‘
سائنس کیا کہتی ہے؟
نوول کورونا وائرس، کورونا وائرس فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سے قبل سووئر ایکوئٹ ریسپیریٹری سینڈروم (SARS-Cov) اور مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سینڈروم (MERS-Cov) سامنے آ چکے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے کسی فرد کو ایک عام زکام سے لے کر سانس کی انتہائی پیچیدہ بیماری COVID-19لاحق ہو سکتی ہے، جو بعض صورتوں میں موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
کورونا فیملی سے تعلق رکھنے والے وائرس جانوروں میں تو پائے جاتے ہیں، تاہم سارس اور میرس کے بعد یہ کورونا وائرس پہلی بار انسانوں میں شناخت کیا گیا ہے۔ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے وائرسز کو زونوٹِک کہتے ہیں۔
تفصیلی تحقیق سے واضح ہے کہ سارس جنگلی بلیوں سے انسانوں میں منتقل ہوا جب کہ میرس اونٹوں سے انسانوں میں آیا۔ جانوروں میں متعدد دیگر کورونا وائرسز بھی پائے جاتے ہیں، تاہم انہوں نے انسانوں کو کبھی متاثر نہیں کیا۔ اس کورونا وائرس سے متعلق ابھی تحقیق جاری ہے۔
اب تک قریب ایک لاکھ بیس ہزار افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے، جب کہ اس وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری کووِڈ انیس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار ہزار تین سو ہیں۔
انسان اس سے قبل اس سے بھی زیادہ شدید قسم کی بیماریوں سے لڑ چکے ہیں۔ یورپ میں چودہویں صدی میں طاعون کی وبا کے نتیجے میں بیس کروڑ افراد مارے تھے گئے۔ بلیک ڈیتھ یا سیاہ موت کہلانے والی یہ بیماری چوہوں سے انسان میں منتقل ہونے والے جرثموں کا شاخسانہ تھی۔
ابھی فقط ایک صدی قبل ہسپانوی زکام کی وبا کے نتیجے میں پانچ سو ملین افراد متاثر ہوئے تھے، جن میں سے پچاس ملین یعنی پانچ کروڑ انسان ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ بیماری برڈ فلو تھی یعنی اس بیماری کا باعث بننے والا وائرس پرندوں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔
کورونا وائرس یقیناﹰ ایک خطرناک وائرس ہے، جس سے بچنے کے لیے موثر احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ ماضی میں اس طرح کی بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک بیماروں کو شکست دینے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ ‘ابھی قیامت دور ہے‘۔