موبائل فون میں ہر طرح کے جراثیم موجود ہوسکتے ہیں اور ان کو اکثر صاف کرنا نئے کورونا وائرس کی منتقلی کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔
یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔
اس تحقیق میں 56 طبی تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا کہ تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ موبائل فونز کس حد تک بیکٹریا اور وائرس وغیرہ کی آلودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران 2006 سے 2019 کے دوران 24 ممالک میں تحقیقات کی گئی تھی اور یہ کووڈ 19 کی وبا سے پہلے ہوئی تھی۔
بونڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج سے ثابت ہوا کہ موبائل فونز میں صرف بیکٹریا ہی نہیں ہوتے بلکہ وائرسز اور فنگی سمیت ہزاروں جراثیم موجود ہوتے ہیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ اوسطاً 68 فیصد موبائل فونز میں متعدد اقسام کے جراثیم موجود ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ اینٹی بائیوٹیکس کے خلاف مزاحمت بھی کرتے ہیں۔
محققین نے فونز پر نئے نوول کورونا وائرس کی موجودگی پر کوئی نیا ٹیسٹ نہیں کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ ایسا ٹھوس امکان ہے کہ موبائل فونز کووڈ 19 کے تیزی سے پھیلنے کا ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کا باعث بننے والا وائرس گلاس، پلاسٹک اور اسٹین لیس اسٹیل پر کئی دن تک زندہ رہ سکتا ہے اور موبائل فونز جراثیموں کے میزبان ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ہم انہیں صاف نہیں کرتے اور ہم انہیں ہر جگہ لے جاتے ہیں اور ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔
اس میں کھانے کا عمل بھی شامل ہے، سونے کی جگہ اور بلکہ متعدد افراد تو ٹوائلٹ بھی لے جاتے ہیں جبکہ طیاروں اور ٹرینوں میں بھی ان کا استعمال ہوتا ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ روزمرہ کی تمام اشیا کسی نہ کسی حد تک جراثیموں سے آلودہ ہوتی ہیں مگر جراثیموں کی آلودگی کے حوالے سے موبائل فونز کا مقابلہ کوئی چیز نہیں کرسکتی۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ اپنے ہاتھوں کو دھونے سے قبل فون کو صاف کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ محفوظ رہنے کے لیے ہر ایک کو سمجھنا چاہیے کہ موبائل فون جراثیمی آلودگی کا ایک ذریعہ ہے اور انہیں اپنا ہاتھ سمجھ کر ہی صاف کرنا چاہیے۔
ان کے بقول موبائل فونز کو دیگر افراد سے بھی بہت زیادہ شیئر کیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو وائرس کی منتقلی کا امکان کم ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل ٹرویل میڈیسین اینڈ انفیکشیز ڈیزیز میں شائع ہوئے۔