نئے نوول کورونا وائرس کی وبا دنیا بھر میں پھیل چکی ہے اور ہر ملک ہی اس سے نجات کے لیے ویکسین حاصل کرنے کا خواہشمند ہیں۔مگر ایسا بھی لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں کئی ممالک کے درمیان ویکسین کی تیاری کے حوالے سے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں، جس کی ایک مثال جمعرات کو فرانسیسی حکام کے سخت بیانات کی شکل میں سامنے آئی۔
فرانسیسی کمپنی سینوفی کے چیف ایگزیکٹو پال ہڈسن نے بدھ کو بلومبرگ نیوز کو کہا تھا ‘ان کی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین پر پہلا حق امریکی حکومت کا ہوگا جس نے اس خطرے کو مول لینے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے کمپنی کی ویکسین تحقیق کے لیے فروری میں سرمایہ کاری کو بڑھایا اور توقع رکھتی ہے ‘اگر ہم بنانے والے کی مدد کریں گے تو ہمیں سب سے پہلے ڈوز ملنے کی توقع بھی رکھنی چاہیے’۔
مگر یہ بیان فرانسیسی حکومت میں اشتعال کا باعث بن گیا اور حکام کا کہنا تھا کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ فرانسیسی کمپنی امریکا کو ممکنہ کووڈ 19 کو پہلے رسائی دے۔
ملک کے وزیر معشیت و خزانہ ایگنس پانیئر رانسیر نے ایک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا ‘ہمارے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ کسی ملک کو سرمایہ کاری پر ترجیحی رسائی دی جائے’۔
فرانس کے وزیر صحت اولیور ویرن نے کہا کہ وہ پال ہڈسن کا بیان دیکھ کر سکتے میں رہ گئے تھے۔
ایک ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘جب میں نے اسے پڑھا تو میں نے اپنا فون لیا، اس وقت رات کے 11 بج رہے تھے، مگر پھر بھی فرانس میں سینوفی کے چیف ایگزیکٹو سے وضاحت طلب کرنے کے لیے کال کی’۔
فرانسیسی وزیراعظم ایڈورڈ فلپ نے ای کٹوئٹ میں کہا کہ کووڈ 19 کے لیے ایک ویکسین دنیا بھر کے لیے عوام کے لیے ہونی چاہیے، ویکسین تک ہر ایک کی مساوی رسائی پر کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے’۔
فرانسیسی صدارتی محل کے ترجمان نے بتایا کہ صدر ایمانوئیل میکرون بھی اس بیان کو دیکھ کر اسی طرح سکتے میں آگئے تھے جیسے ان کے وزرا، اور پال ہڈسن کو اگلے ہفتے ملاقات کے لیے طلب کیا گیا ہے مگر تاریخ نہیں بتائی گئی۔
ترجمان کا کہنا تھا ‘ہم ان اقدامات کے لیے کوششیں کررہے ہیں جن کا مقصد ایک ویکسین کی دستیابی بیک وقت سب کے لیے ممکن بناناتا ہے، کیونکہ اس کی کوئی سرحد نہیں’۔
فرانسیسی صدر جرمن چانسلر اینجلا مارکل کے ساتھ کووڈ 19 کے خلاف کامیاب ویکسین کی عالمی سطح پر دستیابی کے لیے پہلے بھی بات کرچکے ہیں اور اپریل میں انہوں نے کہا تھا ‘ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ دنیا بھر میں دستیاب ہو’۔
فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر کے ساتھ ساتھ متعدد عالمی رہنماؤں نے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے رواں ماہ ایک آن لائن کانفرنس کے دوران ویکسین کی تیاری کے لیے 8.2 ارب ڈالرز فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جو ویکسین کی تحقیق کے ساتھ ٹیسٹنگ کٹس، بڑے پیمانے پر ادویات کی تیاری پر خرچ کیے جائیں گے۔
امریکا نے اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی اور اس کے برعکس وہ براہ راست ادویات بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کررہی ہے۔
اس مقصد کے لیے جونسن اینڈ جونسن کو 50 کروڑ ڈالرز دیئے جائیں گے جبکہ کروڑوں ڈالرز سینوفی اور موڈرینا کو فراہم کیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں سو سے زیادہ ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے اور سینوفی کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش 2020 کی دوسری ششماہی شروع ہونے کا امکان ہے۔
اس سے قبل مارچ میں بھی ایک ویکسین کی تیاری کے حوالے سے جرمنی کے حکام نے امریکا کے خلاف سخت بیانات دیئے تھے۔
اس وقت ڈوئچے ویلے کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جرمنی کی ایک کمپنی کیور ویک کی جانب سے کورونا وائرس کے خلاف ایک ویکسین کی تیاری پر کام ہورہا ہے۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ویکسین پر کام کرنے والے جرمن سائنسدانوں کو خطیرے معاوضے کی پیشکش کی ہے کیونکہ وہ ان کے کام کے حقوق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
کمپنی کو توقع ہے کہ تجرباتی ویکسین جون یا جولائی تک تیار ہوجائے گی اور پھر لوگوں پر اس کی آزمائش کی اجازت مل سکے گی اور اس نے رپورٹ کی تردید کی تھی۔
کمپنی کے شریک بانی نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ متعدد ممکنہ ویکسینز پر تحقیق ہورہی ہے اور ان میں سے 2 سب سے بہتر کو کلینیکل ٹیسٹوں کے لیے منتخب کیا جائے گا۔
اس جرمن کمپنی کے سابق سی ای او ڈینیئل مینیچلا نے 2 مارچ کو وائٹ ہاﺅس میں ایک اجلاس میں شرکت کرکے کورونا وائرس کے حوالے سے ویکسین کی تیاری پر امریکی صدر اور ان کی قائم کردہ ٹاسک فورس کی ٹیم بات کی تھی۔
مگر 11 مارچ کو کمپنی نے ڈینیئل مینیچلا کو بدلتے ہوئے بانی انگرام ہوئیر کو ان کی جگہ دے دی اور کوئی وجہ بیان نہیں کی۔