لکھنئو۔ کورونا کے قہر کے سبب مزدوروں کی کربناک ہجرتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ بسیں کھڑی ہوئی ہیں اور مزدور پیدل چل رہے ہیں۔اور اترپردیش میں انتقام و انا کی سیاست میں گرفتار ارباب اقتدار لٹے پٹے تباہ حال مزدوروں کی تباہی و بربادی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔
کانگریس کے ریاستی صدر اجے کمار للّو کی گرفتاری کے بعد کانگریس اراکین کے ساتھ ساتھ اب ان لوگو ں میں بھی غم و غصہ ہے جو کسی بھی طرح مہاجر و مسافرمزدوروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
اجے کمار للّو کے مطابق، سولہ مئی سے آج تک یوگی حکومت مختلف بہانے بنا کر ہمیں مزدوروں کی مدد کرنے سے روکتی رہی۔ لوگ دیکھ رہے ہیں ہماری بسیں پوری تیاری کے ساتھ ریاست کی سرحدوں پر کھڑی ہوئی ہیں لیکن یو پی حکومت جیسے قسم کھا چکی ہو کہ نہ وہ خود پریشان حال لوگوں کی مدد کرے گی نہ ہمیں کرنے دے گی۔
اجے کمار للّو نے یہ بھی کہا کہ صرف کانگریس کے ہی نہیں بلکہ دیگر سماجی کارکنان کے ساتھ بھی حکومت اور انتظامیہ کے رویے غیر انسانی ہیں۔
مختلف محاذوں پر سماج کے دبے کچلے اور پریشان حال مجبور و مزدور طبقے کی مدد کرنے والی تنظیم پریشر گروپ آف مائنارٹیز کے صدر سید بلال نورانی کہتے ہیں کہ اس وقت بسوں کے موضوع پر سیاست کرکے موجودہ حکومت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسے نہ مزدوروں اور مجبوروں سے ہمدردی ہے اور نہ کورونا کے غریب متاثرین سے۔
جس ملک میں بھوکے پیاسے مزدور پیدل سفر کررہے ہوں، بچے بھوک پیاس سے بلک رہے ہوں اور بسیں کھڑی ہوئی ہوں اس ریاست اور ملک کے حکمرانوں کی بے ضمیری، بے غیرتی اور بے حسی کا اندازہ بہ آسانی وہ بھکت بھی لگا سکتے ہیں جو حکومت کے اس عمل پر اپنی زبانوں پر مصلحت و منافقت کے تالے لگائے بیٹھے ہیں۔
سماجی و سیاسی کارکن وویک بنسل کے مطابق کبھی کہا جاتا ہے کہ بسوں کی فہرست دیجئے۔ کبھی ڈرائیوروں کے دستاویز مانگے جاتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے ساری بسیں لکھنئو پہنچا دیجئے ۔یعنی بات صاف ہے کہ حکومت اتر پردیش مزدوروں کے حق میں اٹھائے جانے والے اقدامات کے خلاف ہے۔ اترپردیش میں تصویر کچھ اور ہے اور دکھائی کچھ اور جارہی ہے۔
سید بلال نورانی نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ اگر مرکز اور ریاست کی موجودہ حکومتوں نے کورونا کے نام پر جمع کئے ہوئے چندے کی رقم ہی کورونا متاثرین اور مہاجر و مسافر مزدوروں پر ایمانداری سے خرچ کردی ہوتی تو مزدوروں کے پیٹ خالی نہ ہوتے۔
ان کے پیروں میں چھالوں کے بجائے ہونٹوں پر مسکان ہوتی ہے لیکن اسے مزدوروں کا نصیب کہئے یا سیاست کی کارفرمائی کے ڈیزل سے بھری بسیں سڑکوں پر کھڑی ہیں اور بغیر روٹی پانی کے مزدور تپتی ہوئے سڑکوں پر پیدل چل رہے ہیں۔