اسلام آباد: ایک جانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ کورونا وائرس پاکستان میں ایران سے واپس آنے والے زائرین کے ذریعے پھیلا وہیں ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے وبا سے متاثرہ ملک سے واپس آنے والوں کے لیے ناقص انتظامات نے تنازع کو شدید کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تھنک ٹینک کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ زائرین 28 دنوں تک قرنطینہ میں رہے جس کے بعد انہیں کورونا وائرس کا ٹیسٹ منفی آنے پر گھروں کو جانے کی اجازت دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’کچھ واقعات میں زائرین 50 دنوں سے زائد عرصے تک قرنطینہ میں رہے اس لیے زائرین کو وائرس کی مقامی ترسیل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا‘۔
مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے الزام لگایا تھا کہ زائرین کو وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی ہدایات پر بغیر ٹیسٹ پاکستان میں داخل ہونے دیا گیا تاہم انہوں نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
’کووِڈ 19 پاکستان میں: زائرین کو قربانی کا بکرا بنانے کی سیاست‘ نامی رپورٹ اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ نے تیار کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد 7 ہزار زائرین ایران سے واپس آئے، یہ رپورٹ تفتار بارڈر کراسنگ پر زائرین کو سنبھالنے، صوبوں کو ان کی منتقلیوں اور ان کی واپسی کے بارے میں میڈیا اور سیاسی بیانیے کا جائزہ لیتی ہے۔
آئی پی ای کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سجاد بخاری نے کہا کہ نئی بیماری کے حوالے سے خدشات حقیقی تھے لیکن شدید سیاسی انتشار اور ایران مخالف فرقہ وارانہ جذبات سے ان میں شدت آئی۔
رپورٹ میں ذکر کیا گیا کہ زائرین کے بحران پر حکومتی بات چیت خاص طور پر ’غیر ذمہ دارانہ‘ تھی جس کے ایک ایسے معاشرے پر نتائج مرتب ہوسکتے ہیں جس میں بہت نازک فرقہ وارانہ توازن قائم ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت نے تفتان بارڈر کو صحرائی ور دوردراز سرحدی علاقہ ظاہر کر کے زائرین کے لیے ناقص انتظامات کی ذمہ داری سے مسلسل راہِ فرار اختیار کی۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایران اور پاکستان کے درمیان مسلسل استعمال ہونے والا زمینی راستہ اور باقاعدہ سرحدی گزرگاہ ہے جہاں بہتر سہولیات اور تیاریاں ہونی چاہیئیں۔
سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ سالانہ 3 لاکھ افراد اس سرحدی گزرگاہ کو استعمال کرتے ہیں اور ہر سال ٹریفک کے شدید دباؤ کی صورت میں تفتان بارڈر پر ناکافی سہولیات کی اطلاعات خبروں میں آتی ہے تاہم کووِڈ 19 کی وجہ سے یہ ناکافی سہولیات زیادہ اجاگر ہوئیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 23 فروری کو عجلت میں بارڈر بند کرنا اور کی موضوں وجوہات نہ بتانا بعدازاں 28 فروری کو کھولے جانے سے تفتان پر ایک سیلاب آگیا اور اس غلطی کی وجہ سے پاکستان میں یہ الزامات لگائے گئے کہ سرحد کھولنے کا فیصلہ سیاسی اثر و رسوخ اور فرقہ واریت پر کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق صوبائی قرنطینہ میں کیے گئے ٹیسٹ ظاہر کرتے ہیں کہ ایران سے آنے والے 6 ہزار 834 زائرین میں سے ایک ہزار 331 کووِڈ 19 میں مبتلا پائے گئے انفیکشن کی اس تعداد کی کی وجہ یہ تھی کہ ان تمام افراد کو تفتان بارڈر پر ایک جگہ رکھا گیا گیا تھا۔