اٹاوہ:26مئی(یواین آئی)کورونا بحران میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور مہاجر مزدوروں اور کسانوں کی حالت قلم بندکرنے کے لئے دہلی کے دو صحافی تپتی دھوپ کی پرواہ کئے بغیر اترپردیش کے قصوں اور گاؤں کاجائزہ لینے کے لئے سائیکل سے ہی نکل پڑے۔
ایک نیوز پورٹل کے لئے کام کرنے والے شرتن لال اور دبیہ یودھ داس دہلی سے لکھنؤ کے سفر پر ہیں اور راستے میں پڑنے والے ہر گاؤں۔قصبے کی حالت، وہاں آئے مہاجر مزدوروں کی موجودہ کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگوں سے بات کر کے اور جو کچھ وہ دیکھ پارہے ہیں اسے یہ پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان راستوں کے ذریعہ پیدل چل کر گھر پہنچنے کی کوشش میں لگے لوگ سرکاری سہولیات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
دہلی سے کوچ کرنے والا ان دو صحافیوں کا قافلہ پہلے ہریانہ کے پلول پہنچا اور اس دوسرے دن اترپردیش میں داخل ہوا۔پھر کوسی کالاں ،متھرا ،ورنداون، آگرہ،شکوہا اآباد اور پھر آٹھویں دن اٹاوہ پہنچا ہے۔
شرتن اور دبیہ یودھ نے بتایا کہ کچھ دن قبل تک فیروزآباد کے نزدیک کے گاؤں سائیکل فروخت کرنے کا اڈہ بن گئے تھے۔ پیدل چل رہے مہاجر مزدور مقامی لوگوں سے سائیکل فروخت کرنے کی گذارش کرتے تھے تاکہ آگے کا سفر تھوڑا آسان ہوجائے۔
انہوں نے اپنے سفر کے دورا ن فیروزآباد کے ایک گاؤں کے کسان امیش چندر یادو کی حقیقی کہانی قلم بند کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’بڑی امیدوں سے امیش نے اپنے کھیتوں میں تربوز کی بوائی کی ھتی۔ پیداوار اچھی رہی لیکن لاک ڈاؤن کا سیدھا اثر تربوز کی کھیتی پر پڑا۔تنگ آکر امیش نے کھیت جتوا دیا’۔انہوں نے بتایا کہ یہ کہانی صرف امیش چندر کی نہیں ہے بلکہ فیروزآباد میں ہر کسان کے زبان پر ایسی ہی کہانی ہے۔
شکوہاآباد سے اٹاوہ کے درمیان ہائی و پر ایسے مدد گار ملے جو 15اپریل سے لگاتار سڑک کنارے کھڑے ہوکر مہاجر مزدوروں کو مدد پہنچا رہے ہیں۔ انجینئر رام بریش یادو اور ان کے مقامی ساتھی اب بھی کھانا پانی لے کر ضرورت مند مہاجر مزدوروں کی مدد کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔
پیدل چلنے والے ،سائیکل مسافر، بائیک سے جانے والےیا پھر بسوں میں سوار مہاجر مزدوروں کو یہ لوگ روک کر کھانا پانی مہیا کرارہے ہیں۔