امریکا نے اعلان کیا ہے کہ چین کے مسافر بردار طیاروں کو 16 جون سے امریکا میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مذکورہ اقدام چین پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ چین سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ امریکی مسافر طیاروں کو بیجنگ میں اترنے کی اجازت دے۔
امریکا کے محکمہ ٹرانسپورٹیشن نے اعلان کیا کہ چین کی جانب سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان پروازوں سے متعلق موجودہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے بعد چین کو سزا دی گئی ہے۔
امریکا کی جانب سے مذکورہ اعلان کا اطلاق ایئر چائنا، چائنا ایسٹرن ایئرلائنز کارپوریشن، چائنا سدرن ایئرلائنز اور ہینان ایئرلائنز ہولڈنگ پر ہوگا۔
دوسری جانب امریکی ڈیلٹا ایئرلائنز اور یونائیٹڈ ایئر لائنز نے رواں ماہ چین کے لیے پروازیں دوبارہ شروع کرنے کی درخواست کی تھی، کیونکہ چینی طیاروں نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران بھی امریکا کے لیے اپنی پروازیں جاری رکھی تھیں۔
ڈیلٹا ایئرلائن نے امریکی حکومت کے اعلان کے بعد کہا کہ ’ہم اپنے حقوق کے نفاذ اور انصاف پسندی کو یقینی بنانے کے لیے امریکی حکومت کے اقدامات کی حمایت اور تعریف کرتے ہیں۔’اس ضمن میں یونائیٹڈ ایئر لائنز نے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
امریکی محکمہ ٹرانسپورٹ نے ایک باضابطہ نوٹس میں بتایا کہ چین اپنے قواعد پر نظرثانی کرنے سے قاصر ہے کہ وہ کب امریکی طیاروں کو طے شدہ پروازوں کی بحالی کی اجازت دے گا؟واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے بھی فوری طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
واضح رہے کہ چین اور امریکا کے مابین کورونا وائرس اور ہانک گانگ میں متنازع قانون کے معاملے پر شدید کشیدگی جاری ہے۔
امریکا اور برطانیہ کی معاملے پر تنقید سے چین مشتعل نظر آتا ہے اور ناقدین کا خیال ہے کہ قانون کے نفاذ سے نیم خود مختار ہانگ کانگ کی محدود آزادی ختم ہو جائے گی۔
امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے نیشنل سیکیورٹی بل پر کڑی تنقید کی ہے جس کے تحت چین کی سیکیورٹی ایجنسیاں ہانگ کانگ میں کھلے عام کارروائیاں کرسکیں گی۔
بیجنگ نے مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
علاوہ ازیں کورونا وائرس سے متعلق امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے نظریہ پیش کیا تھا کہ یہ وائرس اصل میں چینی لیبارٹری میں تیار کیا گیا حالانکہ عالمی ادارہ صحت اور امریکی حکومت کے اعلیٰ ماہر امراضِ کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔