پچیس شوال سنہ ایک سو اڑتالیس ہجری صادق آل محمد (ص) فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام کی تاریخ شہادت ہے۔ اسی مناسبت کے پیش نظر ایران بھر میں طبی ہدایات اور ایس او پیز کا مکمل خیال رکھتے ہوئے مجالس عزا و سوگواری کا انعقاد کیا گیا۔
پچیس شوال کو دنیا بھر میں مسلمان اور بالخصوص عاشقان اہل بیت رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت کا سوگ مناتے ہیں ۔اس موقع پر آپ کی زندگی اور شخصیت پر مختصر تحریر پیش خدمت ہے۔
ابو عبداللہ ، جعفر بن محمد بن علی بن الحسن بن علی بن ابی طالب علیہ السلام معروف بہ صادق آل محمد شیعوں کے چھٹے امام ہیں ۔ جو کہ اپنے والد امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد 7 ذی الحجہ سن 114 ھ ق کو آنحضرت کی وصیت کے مطابق امامت کے منصب پر فائز ہوۓ ۔
امام جعفر صادق (ع) جمعہ طلوع فجر کے وقت اور دوسرے قول کے مطابق منگل 17 ربیع الاول سن 80 ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوۓ ۔
آنحضرت کی والدہ کا نام فاطمہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر جن کی کنیت ” ام فروہ ” تھی ۔
یہ خاتون امیرالمؤمنین علی علیہ السلا کے یار و وفادار شھید راہ ولایت و امامت حضرت محمد بن ابی بکر کی بیٹی تھی ۔ اپنے زمانے کے خواتین میں باتقوی ، کرامت نفس اور بزرگواری سے معروف و مشہور تھی ۔ اور امام صادق (ع) نے ان کی شخصیت کے بارے میں فرمایا ہے : میری والدہ ان خواتین میں سے ہے جنہوں نے ایمان لایا اور تقوی اختیار کیا اور نیک کام کرنے والی اور اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
امام جعفر صادق(ع) کا نسب والدہ کی طرف سے مسلمانوں کے پہلے خلیفے [ابوبکر] اور والد کی طرف سے شیعوں کے پہلے امام اور چوتھے خلیفہ [ حضرت علی (ع) ] تک پہنچتا ہے ۔
آنحضرت بنی امیہ کی حکومت کے اواخر اور بنی عباسی حکومت کے اوائل میں زندگی کر رہے تھے اور بنی امیہ کے خلاف عوامی بغاوت اور بنی عباس کا لوگوں کے ساتھ مذھبی احساسات کے ساتھ استحصال کرکے اور لوگوں سے ” الرضا من ال محمد (ص)” کے عنوان سے لے بیعت لے کر حکومت پر قابض ہونے کا نزدیک سے مشاھدہ گر تھے اور ان حالات میں شیعوں اور محبان اھل بیت (ع) کی امامت کے سنگین کام کو انجام دیتے رہے ۔ امام صادق (ع) عبدالملک بن مروان [ پانچواں اموی خلیفہ ] کے زمانے میں پیدا ہوۓ اور اسکے بعد باقی 8 بنی امیہ خلیفوں اور دو عباسی خلیفوں کے ہمعصر تھے
آخر کار 65 سال کی عمر میں منصور دوانقی کی طرف سے مسموم ہوئے جس سے آنحضرت کی شہادت واقع ہوئی ۔
آنحضرت کی شھادت کی تاریخ کے بارے میں دو قول نقل ہوۓ ہیں ۔ بعض نے 15 رجب سن 148 ھ ق اور بعض نے 25 شوال سن 148 بیان کیا ہے اور مشہور شیعہ مورخوں اور سیرہ نویسوں کے نزدیک دوسرا قول یعنی 25 شوال ہی معتبر ہے ۔
آنحضرت کی شھادت کے بعد حضرت امام موسی کاظم (ع) نے بھائیوں اور افراد خاندان کے ہمراہ آنحضرت کے غسل و کفن کے بعد بقیع میں دفن کیا ۔(4)
امام صادق(ع) کی ہمہ گیر شخصیت کااحاطہ نا ممکن ہے ، اس مختصر تحریر میں تیز رفتار زندگی کے تقاضوں کے پیش نظر اختصاراً امام صادق(ع) کی شخصیت کے چند اہم گوشوں کا تعارف ، نشر علوم، تدوین ۔ فقہ اور دانشگاہ جعفری کے فیوض اور امام کے چند شاگردوں کی علمی خدمات کا ایک تعارفی جائزہ مقصود ہے۔
٢۔ مختصر حالات:
جعفر کے معنی نہر کے ہیں۔ گو یا قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ آپ کے علم و کمالات سے دنیا سیراب ہو جائیگی۔
شخصیت کی عظمت:
شیعہ عقیدہ کی رو سے امامت کسبی نہیں بلکہ وہبی وصف ہے یعنی اس کا تعین خود اﷲ تعالیٰ کرتا ہے اور ایک امام دوسرے آنے والے کی نشان دہی کرتا ہے اس عمل کو (نص) کہتے ہیں یعنی منشائے الہیٰ کا اظہار، امام صادق(ع) کے بارے میں امام باقر (ع) کی بے شمار نصوص معتبر کتابوں میں ملتی ہیں( شیخ مفید ۔ الار شاد، بحار الانوار وغیرہ) ۔ آئمہ علیہ السلام کی زندگی کا ہر قدم ہمارے لئے مشعل راہ ہے ان کی زندگی کا ہر پہلو صحیفہ رشد و ہدایت ہے۔ ان حضرات نے اپنی زندگیاں اطاعت خدا اور رسول میں وقف کردی تھی اور وحی الہٰی اور تعلیمات نبوی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ۔ امام کی حیاتِ طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ بشریت کی یہ قد آور شخصیت اپنے علم و عمل سے انسانیت کو کس قدر فیص بخشا ہے۔
تدوین فقہ ایک جائزہ :
امام جعفر صادق(ع) کے تذکرہ میں ذہن فوری فقہ جعفری کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے کیونکہ تدوین فقہ کی کوشش امام صادق کے حوالہ کے بغیر نا ممکن سمجھی جاتی ہے۔ مکتب تشیع کی فقہ یعنی فقہ جعفری تو اپنی وجہ تسمیہ ہی سے امام صادق(ع) کی مرہون منت اور احسانمندی ظاہر کرتی ہے۔
عربی میں فقہ کے لغوی معنی علم و فہم ہے اور فقیہ کے معنی عالم ہیں لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اصطلاحاً اس سے دینی مسائل اور استدلالی علم مراد لیا جاتا ہے۔ جس میں احکام شریعہ کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ احکام واجب ، مستحب ، حرام ، مکروہ ، اور مباح کے محور کے اطراف اپنے میں سبب، شرط ، مانع ، صحت بطلان، رخصت اور عزیمت کے پہلو لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ تمام فقہی اصطلاحات ہیں جن کی تفصیل متعلقہ کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ فقہ کی اس مختصر تشریح کے بعد اب تدوین کا مطلب جمع کرنا یا مرتب کرنا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم تددوین کی نسبت سے امام جعفرِ صادق(ع) کا نام لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپ نے فقہ محمدیہ کے احکام کو جمع اور مرتب کیا کہ وہ ایک مستقل علم بن گیا۔
٨۔امام جعفر صادق(ع) کے علمی فیوض:
مخلوقات کی ہدایت کی غرض سے انبیاء اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ تخلیق کیا گیا جو ہم تک آنحضرت اور آئمہ اہلبیت کی صورت میں پہنچا۔ باوجود یکہ ختمی مرتبت کے بعد کسی بھی امام کو کام کرنے کا موقع نہ ماحول میسر ہو سکا ہر امام نے اپنے عہد میں فیوض امامت امت تک پہچانے کا مناسب انتظام کیا۔ کربلا کے مصائب کے بعد امام زین العبدین (ع) نے ایک انوکھے انداز میں تبلیغ دین کی جو صحیفہ کاملہ کی صورت میں آثارِ علمیہ کا ایک شاہکار ہے۔ امام محمد باقر (ع) وہ کوہِ علم ہیں جس بلندیوں تک انسان کی نگاہیں پہنچنے سے قاصر ہیں۔ آپ کا شریعت کدہ علم و حکمت کا سرچشمہ تھا۔ امام جعفر صادق(ع) کی شخصیت کا اہم رخ یہ ہے کہ آپ نے اپنے علمی انقلاب سے معارف اسلام کے افق کو اتنی زیادہ وسعت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نسل بعد جب حضرت امام رضا نیشا پور میں قدم رکھتے ہیں تو ہزار ہا افراد امام ؑ کی اواز سننے اور ارشاد کوکاغذ پر محفوظ کرنے سراپا مشتاق تھے ۔ یوں تو سلسلہ امامت کے ہر فرد نے جس قدر ممکن ہوسکا ظلم و ستم اور قیدو بند کی فضاؤں میں بھی فرائض امامت کو انجام دیا، لیکن امام صادق(ع) کو اپنے عہد میں موقع مل گیا تھاکہ آنحضرت کے مقصد یعنی ( کتاب و حکمت کی تعلیم) کو فروغ دیں۔ اس دور میں علم کا پھیلا ؤ اس حد تک ہوا کہ انسانی فکر کا جمود ختم ہو گیا اور فلسفی مسائل کھلی مجلسوں میں زیر بحث آنے لگے ۔ اس ضمن میں جسٹس امیر علی لکھتے ہیں۔ ” یہ تحریک امام صادق(ع) کی سر کردگی میں آگے بڑھی جن کی فکر و سیع ، نظر عمیق اور جنہیں ہر علم کی دستگاہ حاصل تھی حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اسلام کے تمام مکاتب فکرکے موسس اور بانی کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی مجلس بحث ودرس میں صرف وہی افراد نہیں آتے تھے جو بعد میں امام مذہب بن گئے بلکہ تمام اطراف سے بڑے بڑے فلاسفر استفادہ کرنے حاضر ہوتے تھے۔ ”
امام صادق(ع) کے علمی فیوض کے ضمن میں یہ عرض ہے کہ علم تو آئمہ کی میراث ہے جس شعبہ سے بھی متعلق ہو سوال کرنے والے کو مطمئن کردیا۔ ان کے ذاتی تقدس اور دینی نظام میں ان کے مقام کے حوالے سے امام سے حصولِ فیوض کو زیادہ تر دینی معاملات تک محدود رکھا گیا۔ یہ ہماری بصیرت کی کوتاہی ہے۔ ورنہ علوم طبعیہ اور کونیہ (کائناتی معلومات) علوم میں بھی ہم اپنے آئمہ کو انتہائی مقام پر فائز دیکھتے ہیں۔ نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ میں اس ضمن میں بے شمار اشارے موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے امام جعفر صادق کو درس و تدریس ، بالمشافہ افہام و تفہیم ، مناظرون اور مواعظہ حسنہ کی صورت میں ایسا ما حول اور موقع میسر ہو اکہ علوم جدیدہ کے شعبہ میں بھی اپنے فیوض سے مستفید کر سکے بلکہ یہ کہنا بر محل ہوگا کہ اس سلسلہ میں بھی انہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔
25 شوال ؛ یوم شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام
مغز متفکر اسلام :
مختلف علوم میں امام کی دسترس کا بنیادی راز یہ ہے کہ آئمہ اور معصومین کا علم لدنی ہوتا ہے اور کائنات کی ہر چیز ان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ یہ الہامی علم ہے جس کی بنیاد روحانیت ، تزکیہ نفس اور معارف الہیہ ہیں اس موقع پر ایک اہم کتاب کا حوالہ مقصود ہے جس کا ہمارے علمی حلقوں میں بے حدچرچا ہے، فرانس کے شہر اسٹراسبرگ کی یونیورسٹی کے مطالعاتی مرکز سے شائع ہونے والی کتاب کا فرانسیسی زبان سے ذبیح اﷲ المنصوری نے ”مغز متفکر جہانِ شیعہ ” کے نام سے فارسی ترجمہ کیا تھا۔ ہمارے دانشور محمد موسیٰ رضوی نے اس کتاب کی اردو زبان میں تلیخض ” حضرت امام جعفری صادق کے بارے میں ٢٣ یورپی دانشوروں کی تحقیق” کے عنوان سے دو حصوں میں ادارہ تبلیغات ِ اسلامی کے ذریعہ شائع کروائی۔ اردو داں طبقہ کے لئے ان کی یہ خدمت لائق تحسین ہے۔ بعد ازاں قیام پبلی کیشنز لاہور نے ١٩٩٤ء میں اصل فارسی کتاب کا مکمل اردو ترجمہ شائع کیاجس کے مترجم سید کفایت حسین ہیں۔ اصل کتاب کی مناسبت سے اس کا نام ” مغز متفکر اسلام ” ہے لیکن اس کا عوامی نام ” سپر مین اِن اسلام ” زیادہ زبان زد عام ہے ۔
اس کتاب میں ایسے مطالب درج ہیں جو پہلی مرتبہ عام قاری تک پہنچے ہیں، یہ کتاب ایک علمی کاوش ہے جو ٢٥ دانشوروں کی تحقیق کا نتیجہ ہے جس میں صرف دو مسلمان ہیں ( حسین نصر، موسیٰ صدر) باقی یورپ اور امریکہ کی مختلف جامعات سے منسلک پروفیسر اور مستشرقین ہیں۔ اس کا وش کا پس منظر یہ ہے کہ ستر ہویں صدی عیسوی سے اسلامی مسائل یورپ کے دانشوروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے ۔ اسٹر اسبرگ یونیورسٹی کا تحقیقاتی مرکز جوادیان عالم پر ریسرچ کرتا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد اہل تشیع اور ان کے مذہب کی عظیم شخصیات کی علمی سطح ، خدمات اورفیوضات کا جائزہ لیا اور اس جائزہ کے دوران مختلف کتب خانوں میں موجود شیعہ دانشوروں کی علمی تحقیقات اور دستاویزات کے مطالعہ کے نتیجہ میں ان دانشوروں کو امام جعفر ِ صادق کی آفاقی شخصیت کا پہلی مرتبہ انداز ہوا۔ (موسیٰ رضوی]
یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ممتاز دانشور محمد ابوزہرا مصری کے مطابق” اختلاف فکر و نظر اور اختلاف حزب و طائفہ کے باوجود علماء اسلام کسی امر پر اس درجہ متفق نہیں ہوئے جتنے امام جعفر صادق کے علم و فضل پر یعنی حق زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتا ۔ یہان یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کے مندرجات کے انتخاب کی اساس امام صادق ؑ کی روحانیت نہیں ہے اور نہ یہ توقع رکھنی چاہئے کی متذکرہ غیر مسلم دانشور امام کی ذاتی ، مذہبی یارو حانی شخصیت کی طرف کوئی جھکا ؤ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے امر باعث طمانیت ہے جو نتائج اخذ کئے گئے اور جو انکشافات پیش کئے گئے بالکلیہ علم و فضل اور سائنسی علوم کی جانچ کے عالمی معیار پر پورے اترے، یہی اس کتاب کی پذیرائی کا منفرد پہلو ہے۔ اس کتاب میں علوم جدیدہ سے متعلق انکشافات اور مندرجات پڑھ کر ایک فخر محسوس ہوتا ہے جب امام ایک استاد کی طرح نہایت دقیق مسائل مثلاً ماحول کا تحفظ ، دنیا کے حالات میں بد نظمی کے اسباب ، کائنات کا متحرک ہونا، تخلیق کائنات ، وائرس ، جراثیم اور اینٹی باڈیز( ضد اجسام) اور مادہ کی دوامیت جیسے نظریات کے اسباب و علل اور توضیحات نہایت آسان پیرا یہ میں سمجھا تے ہیں ۔ تیرہ سو سال پہلے جب انسانی ذہن میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا کوئی واضح تصور موجود نہ تھا اور نہ صحت کے ساتھ جانچنے والے آلات موجود تھے اس وقت امام جعفر صادق(ع) نے حیات و کائنات کے حوالہ سے ایسے افکار و نظریات پیش کئے جو صدیوں بعد علمی اور سائنسی تجربات کی پیش رفت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات سے حد درجہ مطابقت رکھتے ہیں۔
۔چند مثالیں
اس مقالہ میں ان امور پر تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں لیکن صرف سر سری طور پر چند نظریات کی طرف اشارہ مقصود ہے تاکہ تجس کو مہمیز ملے۔
١۔ عناصر اربع: امام نے واضح کیاکہ عناصر اربع میں ہوا ایک مجرو عنصر نہیں اور نہ ہی پانی ، بلکہ یہ مرکبات ہیں آج ہمارے پاس ١٠٩ عناصر کی ایک طویل فہرست ہے ۔
ب۔ زمین کی حرکت: امام نے آیاتِ قرآنی کی روشنی میں ثابت کیا کہ سورج اپنی جگہ قائم ہے اور زمین سورج کے اطراف اپنے محور کے گرد گھومتی ہے جس سے دن رات اور موسم تبدیل ہوتے ہیں ، یہ ایک انقلابی دریافت ہے۔
ج۔ ماحول کے تحفظ کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ آدمی کو زندگی اس طرح گزارنی چاہئے کہ اس کا ماحول آلودہ نہ ہو ورنہ بالآخر زندگی گزارنا مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائیگا۔ آج ماحولیات سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
د۔ امام کی نظر میں طوفان، سیلاب ، زلزلہ کائنات کی بدنظمی نہیں ہے بلکہ ایک مستقل ناقابل ِ تسخیر اور تغیر قواعد کی اطاعت کا نتیجہ ہے جس کے خلاف انسان کو ئی تدارک نہیں کرسکتا۔ ( ثقلین ۔١١)
خلاصۃ ً عرض ہے کہ امام صادق(ع) نے کلیات کی طرف اشارہ کردیا ہے اگر ان کی جزئیات پر موجود سائنس علوم اور وسائل کے ساتھ تحقیق کی جائے تو انسانیت کی بھلائی کے اسباب مہیا ہو سکتے ہیں۔
امام صادق(ع) کے شاگر د اور اصحاب:
ایک درخت اپنے پھل سے، ایک آدمی اپنے ساتھیوں سے اور ایک استاد اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ امام صادق(ع) کے شاگرد اور اصحاب کی ایک طویل فہرست ہے ان میں چند معروف نام آبان بن تغلب ، ہشام ابن الحکم، مفضل بن عمر، حماد بن عیسیٰ ، زرارۃً بن اعین، محمد بن علی المعروف مومن طاق اور آخر میں لیکن بہت قابل احترام جابر بن حیان ہیں۔
امام جعفر صادق سے پہلے تحصیل علم کے لئے لوگوں میں خاص رغبت نہیں پائی جاتی تھی اس عدم تو جہی کا ایک سبب درس و تدریس کا طریقہ تھا، مسلمانوں میں حصول ِ علم کا جذبہ اور شوق پیدا کرنے کے لئے امام صادق(ع) نے باہمی ربط کا موثر طریقہ رائج کیا جس کو موجودہ زمانہ میں Intractive طریقہ کہتے ہیں اس میں شاگرد کو سوالات کرنے کی آزادی تھی امام سے مختلف افراد کے مناظروں میں اس طریقہ کی جھلک نظرآتی ہے، امام کی دانشگاہ میں مختلف علوم یعنی فقہ، حدیث ،اصول، علم کلام اور تفسیر کے علاوہ علوم طبیعی اور علمِ ابدان سے متعلق امور پر درس و تدریس اور بحث و مباحثے ہوتے تھے۔ امامؑ اپنے شاگردوں کو تاکید فرماتے تھے کہ جو کچھ سمجھو اور سنو لکھ لو کیونکہ جب تک لکھو گے نہیں اس وقت تک حفاظت نہ کرسکو گے۔ علم و حکومت کو زمانے کی دست برد سے محفوظ رکھنے کے لئے ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے، انسان کا حافظہ کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو تحریر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ امام صادق کا منشایہ تھاکہ ذہن کی دی ہوئی دولت اور بصیرت کی نعمت کو الفاظ کے مکتوبی حصار میں محفوظ کرلینا چاہئے۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ مغرب کے علمی سفر کا آغاز سولہویں صدی سے ہو تا ہے جبکہ لوگ نو جوانوں کو مشورہ دیتے تھے کہ تہذیب یا علم کے لئے عربی سیکھو جس کی بنیاد وہ معلومات یا نکات ہیں جن کو امام صادق کے فیض اور سرپرستی میں حاصل کر کے جابر جیسے شاگرد وں نے سائنس کو مالا مال کردیا، جابر کے ٥٠٠ رسائل اور کتابوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا گیا کچھ کتابیں فرانسیسی تراجم کے ساتھ ایران ، مصر، ترکی ، جرمنی اور فرانس کے کتب خانوں کی زینتیں ہیں۔ اب انٹر نیٹ اور ویب کی سہولتوں کے ذریعے امام کے فیوض دنیا کے ہر کونے میں علم کے پیاسوں کی دسترس میں ہیں۔
مام جعفرصادق علیہ السلام کے بعض نصائح وارشادات
-سعید وہ ہے جوتنہائی میں اپنے کولوگوں سے بے نیازاورخداکی طرف جھکاہواپائے ۔
-جوشخص کسی برادرمومن کادل خوش کرتاہے خداوندعالم اس کے لیے ایک فرشتہ پیداکرتاہے جواس کی طرف سے عبادت کرتاہے اورقبرمیں مونس تنہائی ،قیامت میں ثابت قدمی کاباعث، منزل شفاعت میں شفیع اورجنت میں پہنچانے میں رہبرہوگا۔
۔ نیکی کاتکملہ یعنی کمال یہ ہے کہ اس میں جلدی کرو،اوراسے کم سمجھو،اورچھپاکے کرو۔
۔ توبہ میں تاخیرنفس کادھوکہ ہے۔
۔ لڑکی (رحمت) نیکی ہے اورلڑکانعمت ہے خداہر نیکی پرثواب دیتاہے اورہرنعمت پرسوال کرے گا۔