استنبول: ترک صدر رجب طیب اردوان نے آیا صوفیہ کے مسجد میں تبدیل ہونے کے بعد اچانک وہاں کا دورہ کیا جبکہ اس جگہ کو 24 جولائی (جمعہ) سے عبادت کے لیے کھول دیا جائے گا۔
ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق صدارتی دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آیا صوفیہ کے دورے کے دوران رجب طیب اردوان نے مسجد کے تعمیراتی کام کا جائزہ لیا۔
خیال رہے کہ ترک مذہبی اتھارٹی دیانیت نے کہا کہ نماز کے اوقات کے دوران مسیحی علامات پر مناسب طریقے سے پردہ ڈالا جائے گا۔
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوان جمعہ (24 جولائی) کو آیا صوفیہ میں پہلی مرتبہ نماز ادا کرنے والے 500 افراد کے ساتھ شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں یا نہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے انقرہ میں ترک سپریم عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ‘اس جگہ کا مسجد کے لیے تعین کردیا گیا تھا اس لیے اس کو قانونی طور پر کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا ممکن نہیں ہے’۔
فیصلے میں جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک کے دستخط شدہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ‘1934 میں کابینہ کی جانب سے مسجد کو ختم کرکے اس کو میوزیم قرار دینا قانون کے زمرے میں نہیں آیا’۔
جس کے بعد11 جولائی کو ترک صدر رجب طیب اردوان نے آیا صوفیہ مسجد کو عدالتی فیصلے کے بعد بحال کرتے ہوئے نماز کے لیے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
طیب اردوان نے کہا تھا کہ ‘آیا صوفیہ مسجد کی انتظامیہ کو مذہبی امور کے ڈائریکٹریٹ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ عبادت کے لیے کھلی ہوگی’۔
چھٹی صدی میں بننے والی عمارت کو 1935 میں میوزیم بنائے جانے کے بعد سے لوگوں کے عقائد سے قطع نظر تمام افراد کے لیے کھولا گیا تھا۔
بعدازاں رواں ہفتے دیانیت نے کہا تھا کہ نماز کے اوقات کے علاوہ آیا صوفیہ تمام افراد کے لیے کھلا ہوگا۔
دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے اہم مقام آیا صوفیہ کو پہلی بار عیسائی بازنطینی سلطنت میں ایک گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا تاہم 1453 میں سلطنت عثمانیہ کے قسطنطنیہ پر فتح کے بعد سے اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
جس کے بعد جدید ترکی کے سیکیولر بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے اپنی حکمرانی کے ابتدائی دنوں میں ہی آیا صوفیہ مسجد کو میوزیم میں تبدیل کردیا تھا۔
گزشتہ برس ترک صدر نے کہا تھا کہ آیا صوفیہ کو میوزیم میں تبدیل کرنا ‘ بہت بڑی غلطی’ تھی۔
تاہم یونان نے اس اقدام کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی جبکہ فرانس نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا اور امریکا نے بھی مایوسی ظاہر کی۔
روس کے نائب وزیر خارجہ الیگزنڈر گروشکو نے کہا تھا کہ ماسکو کو اس فیصلے پر افسوس ہے، روسی آرتھوڈوکس چرچ کا کہنا تھا کہ ہمیں افسوس ہے کہ عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے تشویش کو مدنظر نہیں رکھا اور اس فیصلے سے بڑے اختلافات جنم لے سکتے ہیں۔
گرجا گھروں کی عالمی کونسل نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سے مطالبہ کیا کہ وہ آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کے اپنے فیصلے کو واپس لیں۔