امام محمد تقی کی مجاہدانہ زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیشہ حق کی سر بلندی کےلئے کوشاں رہنا چاہیے اور کسی بھی ظالم سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے نویں امام حضرت امام محمد تقی کی شہادت کے موقع پر کہا کہ امام محمد تقی علم و کمال اور جود و سخا کے مظہر تھے اور اپنے زمانے میں تقوی و پارسائی اور دیگر اخلاقی اقدار میں سب سے زیادہ باشرف شخصیت تھے۔
امام نے زمانے کے انسانوں کو رشد و ہدایت کی طرف دعوت دیتے ہوئے اپنی مبارک زندگی راہ خداوندی میں گذاری اُن کی نگاہ میں فقط رضائے خداوند کریم مد نظررہی اسی لئے کسی بھی بڑے ظالم کے ظلم سے نہیں گھبراتے تھے اور کلمہ حق کی سربلندی کیلئے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے ان کی ذاتی زندگی بندگان خد اکےلئے اتنی پُرکشش تھی کہ وہ انہیں یاد خدا کی طرف راغب کر دیتی تھی ۔
علامہ ساجد نقوی نے امام محمد تقی ؑ کی طرز زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آپ کی حیات مبارکہ بھی رسول خدا کی تعلیمات کا اعلیٰ عملی نمونہ تھی ،امام ؑنے اس دنیا میں صرف 25سال گذارے لیکن اتنی کم عمر میں بھی وہ کمال کے علمی واخلاقی نمونے چھوڑ گئے جو رہتی دنیا تک بشریت کیلئے ہدایت کاسرچشمہ ہیں ان کی علمی عظمت اور تقوی و پارسائی کا وہ اعلیٰ و ارفع مقام تھا کہ دیگرمذاہب کے علما ءبھی ان کی بے حد تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ امام محمد تقی ؑ تمام آئمہ میں سب سے کم عمر تھے اور جوانی کی عمر میں ہی جام شہادت نوش فرماگئے اس لئے ان کی حیات مبارکہ تمام عمر کے افراد کےلئے بالعموم اور نوجوانوں کیلئے بالخصوص مشعل راہ ہیں ۔آج کے دور کا نوجوان جو مختلف قسم کی مشکلات اور پریشانیوں میں گھر اہوا ہے اس کی مثالی زندگی کاسامان امام ؑ کی عملی زندگی میں دکھائی دیتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ دور شباب کے عروج پر یہ بات بھی ممکن نظر آتی ہے کہ انسان اپنی خواہشات نفسانی کو کنٹرول کرکے اطاعت خداوندی میں زندگی بسر کر سکتا ہے اور یہ وہ رموز سعادت ہیں جو انسان کو دنیا اورآخرت میں کامیاب کرسکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا امامؑ کی زندگی سے ایک اورسبق جو ہم سب کو ملتا ہے وہ علم و دانش کےلئے ہمیشہ کوشاں رہنا ہے۔اس علم و دانش سے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نکھار آتا ہے اور اسطرح وہ اپنی انفرادی و اجتماعی ذمہ داریوں کو احسن طریقہ سے نبھانے کے قابل ہو جاتا ہے ۔ایک دن نوجوانوں کا ایک گروہ امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے امام سے نصحیت کی درخواست کی تو امام ؑ نے تین نصیحتیں فرمائیں جو تمام انسانیت کے لئے بالعموم اور نوجوانوں کے لئے بالخصوص بہت اہمیت کی حامل ہیں ۔فرمایا صبر کو اپنا سرھانہ بنا لو ، فقر کو آغوش میں لے لو اور اپنی خواہش نفسانی کو کنٹرول کر لو اس بیان میں امام محمد تقی ؑ نے نوجوانوں کے بنیادی مشکلات اور پریشانیوںکے حل کیلئے رہنمائی فرمائی ۔امام محمد تقی ؑ کی زندگی کا ایک اور پہلو ان کی بے پناہ علمی خدمات ہیں انہوںنے اس حوالے سے اپنے بہت سے شاگردوں کی مختلف علوم اور اخلاق کے موضوعات پر تعلیم و تربیت کی ۔امام ؑکے شاگردوں کی تعداد تاریخی کتب میں سینکڑوں تک ملتی ہے ۔
علامہ ساجد نقوی نے آخر میں کہا کہ امام محمد تقی ؑ کی زندگی کا ایک اہم پہلو ان کے وہ علمی مناظرات ہیں جو دیگر مذاہب کے علما ءکے ساتھ ہوئے ان علمی مناظروں میں ہمیشہ اسلام کی سربلندی کا سہرا آپ کے سر جاتا ہے ان مناظروں میں علم الکلام اور فقہی مسائل کے مناظرے زیادہ مشہور ہیں ۔آج کی انسانیت کےلئے امام محمدتقی ؑ کی مجاہدانہ زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیشہ حق کی سر بلندی کےلئے کوشاں رہنا چاہیے اور کسی بھی ظالم سے نہیں ڈرنا چاہیے ۔آپ نے ہمیشہ اپنے زمانے کے حکمرانون کے سامنے کلمہ حق کو بیان کیا یہی وجہ ہے کہ 25سال کی زندگی میں جام شہادت نوش فرمایا۔