لکھنؤ:23جولائی: اجودھیا میں متنازع اراضی ملکیت قضیہ میں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راجیو دھون کو مبینہ رقم کی اداگئی کے معاملے میں جمعتہ العلماء ہند کی پراسرار خاموشی کے بعد اب پلیسیس آف ورشپ(اسپیشل ایکٹ)1991 کی منسوخی (پس پردوہ متھرا۔کاشی کی مساجد پر دعوی) معاملے میں جمعیتہ کی سپریم کورٹ میں نئی عرضی نے کئی سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔
جمعیتہ العلماء کی جانب سے ایڈوکیٹ نے اعجاز مقبول اپنی اس عرضی میں جہاں ایکٹ’ پلیسیس آف ورشپ(اسپیشل ایکٹ)1991’کو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیت کا امین گردانا ہے، وہیں مخالف فریق کے تمام دعوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘ان تمام کے قطع نظر اگر عرضی گذار کے تمام اعتراضات اور الزامات کو سچ تصور کرلیا جائے “تو یہ کچھ نہیں ہے سوائے تاریخ کی غلطیوں کی درستگی کا مطالبہ کرنا”(بہ الفاط دیگر مسلم سلاطین کے ذریعہ ہندو عبادگاہوں کی مبینہ مسماری اور اسے پر مسلم عباد گاہیں تعمیر کرنا)۔
جمعیتہ علماء کی عرضی میں درج اس جملے سے قانونی ماہرین کو کئی قسم کی تحفظات ہیں۔ سپریم کورٹ کی وکیل رفعت آراء کے مطابق پہلے ایک ایسا معاملہ جو آئین کے کسی ایکٹ کی منسوخی کے مطالبے پر مبنی ہے اور جس میں یونین آف انڈیا کو پارٹی بنایا گیا ہے اس میں جمیعتہ کا عرضی داخل کرکے مسلم فریق کا موقف رکھنے کے لئے خود کو پارٹی بنانے کا دعوی سمجھ سے پرے ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ عرضی میں ’’ تاریخ کی غلطیوں کی درستگی ۔ ۔ ۔‘‘ والے جملے کا استعمال مخالف فریق کے لئے کئی راستے کھولتا ہے۔وہ اسے سیدھے طور پر مسلم سماج کے ذریعہ اس بات کے اقرار سے تعبیر کرسکتے ہیں کہ مسلم عبادت گاہیں ہندوعبادتگاہوں پر تعمیر کی گئی ہیں۔ اس طرح یہ جملہ انہیں قانونی جواز فراہم کرسکتا ہے۔
اس ضمن میں سپریم کورٹ کے وکیل رضوان احمد درانی کہتے ہیں کہ جمعیتہ علماء کا یہ جملہ” یہ کچھ نہیں ہے سوائے تاریخ کی غلطیوں کی درستگی کا مطالبہ “بحث کا اہم نکتہ ہوسکتاہے اورعدالت میں بحث کو نیا موڑ دے سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جملے کے تناظر میں یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ ‘تاریخی غلطی کو درست کیوں نہیں کرسکتے! جب مسلم پارٹی خود اس کا اعتراف کررہی ہے”۔