واشنگٹن: وائس آف امریکا (وی او اے) کی اردو سروس مسلم ووٹس جیتنے کے لیے امریکا کی 2 بڑی جماعتوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک کے درمیان جاری کشمکش کے بیچ میں خود اتر آئی ہے۔
کچھ اردو صحافیوں کو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جوبائیڈن کے حق میں ویڈیو نشر کرنے پر اپنی ملازمت کھونا پڑ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں صرف 35 لاکھ مسلمان ہیں جو مجموعی آبادی کا تقریباً 1.1 فیصد ہے اور بظاہر اسی وجہ سے گزشتہ انتخابات میں کسی جماعت نے مسلمان ووٹس حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن اس مرتبہ الیکشن کچھ مختلف ہے۔
اور اس نکتہ پر 22 جولائی کی نظرثانی شدہ اردو مواد کی ویڈیو میں بھی روشنی ڈالی گئی تھی، جس کی تحقیقات کا آغاز ہوگیا ہے۔
پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘امریکا کی کچھ اہم ریاستوں میں مسلمان ووٹرز کی تعداد آئندہ انتخاب میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، 2016 انتخاب میں امریکی صدر 11 ہزار سے کم ووٹس کے ساتھ مشی گن میں کامیاب ہوئے تھے جبکہ اس ریاست میں 15 لاکھ مسلمان ووٹرز ہیں۔
وی او اے کی اردو ویب سائٹ پر لوگوز اور سب ٹائٹلز کے ساتھ شائع کی گئی اس ویڈیو میں جوبائیڈن 20 جولائی کو لاکھوں مسلمان ووٹس کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے جو ایک غیرمنافع بخش امگیج ایکشن کی جانب سے منعقدہ کی گئی تھی۔
اس ویڈیو میں انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ وہ ‘پہلے ہی دن’ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ مسلمان مخالف اقدامات کو ختم کردیں گے ساتھ ہی انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا تھا کہ وہ ‘اسلاموفوبیا’ کو شکست دینے کے لیے انہیں ووٹ دیں۔
تاہم اس ویڈیو کے نشر ہونے کے تقریباً ایک ہفتے بعد کچھ ٹرمپ کے حامی گروپس نے اس ویڈیو کو امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) کے سی ای او مائیکل پیک کو بھیج دی تھی جو وائس آف امریکا بھی چلاتی ہے۔
جس پر انہوں نے فوری طور پر تحقیقات کا حکم دیا تھا کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ کیسے اور کیوں یہ ویڈیو نشر کی گئی۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ‘ جس اسٹاف ممبر نے امریکی انتخابات میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی اسے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا’۔
مذکورہ بیان میں کہا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 2 سب سے بڑی کانگریس حریف ڈیموکریٹک کانگریس وومن منی سوٹا کی الہان عمر اور مشی گن کی راشد طلیب بھی ‘اس ویڈیو میں نظر آئیں تھیں’۔
امریکی ایجنسی برائے گلوبل میڈیا کے بیان سے نومبر 2020 کے انتخابات میں مسلمان ووٹرز کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا۔
ایجنسی کی جانب سے مزید کہا گیا کہ وی او اے کے ٹوئٹر، انسٹاگرام اور فیس بک اکاؤنٹس پر بھی شیئر کیا جانے والے مواد کو بھی ہٹا دیا گیا ہے اور ہوسکتا ہے اس نے وفاقی قانون کی خلاف ورزی کی ہو۔
علاوہ ازیں امریکی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا کہ ‘کچھ وی او اے اردو کے ملازمین’ سے اس مواد کے نشر ہونے پر تحقیقات کی جارہی ہے جبکہ مائیکل پیک کا کہنا تھا کہ تحقیقات مکمل ہونے پر جو ذمہ دار ہوں گے ان کے ساتھ ‘تیز اور منصفانہ طریقے’ سے نمٹا جائے گا۔