حوزہ/غدیر کا واقعہ صرف پیغمبر اکرم(ص) کا جانشین مقرر کرنے کیلئے رونما نہیں ہوا۔ غدیر کے دو پہلو ہیں: ایک جانشین مقرر کرنا اور دوسرا امامت کے مسئلے پر توجہ دلانا۔ امامت اسی معنی میں جو تمام مسلمان اس لفظ یا عنوان سے سمجھتے تھے۔
سیمای رهبر معظم انقلاب اسلامی
18 ذی الحج دس ہجری کے دن جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی حیات مبارک کے آخری مراحل میں تھے خداوند تبارک و تعالی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آپ ص کے حضور بھیجا اور حکم دیا کہ میرے دین سے متعلق وہ اہم پیغام پہنچا دو کہ جسے نہ پہنچانے کی صورت میں تمہاری اب تک انجام پائی ساری زحمت بے نتیجہ ہو جائے گی۔
یہ پیغام درحقیقت امت مسلمہ کے مستقبل سے مربوط تھا۔ امت مسلمہ کو نظام امامت کی صورت میں ایک الہی سیاسی نظام عطا کیا جا رہا تھا۔ تقریباً اڑھائی سو سال بعد آخری امام حضرت ولیعصر عج نے اپنی غیبت کبری کے آغاز کی خبر دی اور انہیں اپنی بظاہر عدم موجودگی میں ایسے فقہاء کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیا جو خدا کے مطیع اور نفسانی خواہشات کے مخالف ہوں۔ یوں نظام مرجعیت کا آغاز ہو گیا۔
غیبت کبری سے اب تک مکتب اہلبیت اطہار علیہم السلام کے پیروکاروں میں ایسے عظیم متقی اور مجاہد مجتہد یا فقیہ پیدا ہوتے رہے جنہوں نے نہ صرف ملت تشیع بلکہ امت مسلمہ کو اپنی عالمانہ اور مجاہدانہ صلاحیتوں کی بدولت زمانے کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بنیادی رہنمائی اور سرپرستی فراہم کی۔
یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وقت کے عظیم مجاہد اور مجتہد امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے نظام مرجعیت کو اٹھان دی اور ایران میں فقہ اہلبیت علیہم السلام کی بنیاد پر جدید زمانے کے تقاضوں کے مطابق ایک اسلامی نظام حکومت تشکیل دیا۔ یہ نظام حکومت جو نظام ولایت فقیہ کے نام سے معروف ہے درحقیقت نظام امامت کا ہی تسلسل ہے۔
ولی فقیہ درحقیقت غدیر کا پاسبان ہے جس نے امام عصر عج کے ظہور تک اس عظیم الہی نعمت کی پاسبانی کرنی ہے۔ تحریر حاضر میں غدیر کے موجودہ پاسبان ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نگاہ سے غدیر کو پہچاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
غدیر کو زندہ رکھنا اسلام کو زندہ رکھنا ہے
غدیر کو زندہ رکھنا ایک معنی میں اسلام کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اہل تشیع اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کی ولایت کا عقیدہ رکھنے والوں سے مخصوص نہیں ہے۔ اگر ہم اہل تشیع اور امام علی علیہ السلام کے پیروکار ہونے کا دعوی کرنے والے غدیر کی حقیقت کو صحیح انداز میں بیان کر دیں، خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں تو واقعہ غدیر بذات خود اتحاد اور وحدت کا باعث بن سکتا ہے۔
ایک خاص مذہبی فرقے کی جانب سے عقیدے کی صورت میں غدیر سے متصل رہنا ایک موضوع ہے جبکہ غدیر کی شناخت ایک علیحدہ موضوع ہے۔ اسلام نے اسلامی معاشرے، اسلامی نظام اور اسلامی دنیا کی تشکیل کے بارے میں اپنے اعلی ترین نظریات کا اظہار واقعہ غدیر میں کیا ہے۔ (31 اکتوبر 2012ء)
غدیر کا مقصد صرف جانشین مقرر کرنا نہیں بلکہ نظام امامت متعارف کروانا تھا
غدیر کا واقعہ صرف پیغمبر اکرم ص کا جانشین مقرر کرنے کیلئے رونما نہیں ہوا۔ غدیر کے دو پہلو ہیں: ایک جانشین مقرر کرنا اور دوسرا امامت کے مسئلے پر توجہ دلانا۔ امامت اسی معنی میں جو تمام مسلمان اس لفظ یا عنوان سے سمجھتے تھے۔ امامت یعنی انسانوں کی پیشوائی، دینی اور دنیوی امور میں معاشرے کی پیشوائی۔
یہ مسئلہ پوری انسانی تاریخ میں ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ امامت کا مسئلہ صرف مسلمانوں یا اہل تشیع سے مخصوص مسئلہ نہیں ہے۔ امامت یعنی ایک شخص یا گروہ ایک معاشرے پر حکمرانی کرتا ہے اور دنیوی اور روحانی اور اخروی امور میں اس کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ یہ تمام انسانی معاشروں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ (25 نومبر 2010ء)
اگر مخالفت نہ ہوتی
آج ہم اور انسانی معاشرہ بدستور انسان کی ابتدائی ضروریات میں پھنسا ہوا ہے۔ دنیا میں بھوک ہے، امتیازی رویے ہیں۔ کم بھی نہیں ہیں بلکہ وسیع حد تک ہیں۔ ایک جگہ محدود بھی نہیں ہیں بلکہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ بدمعاشی ہے، انسانوں پر انسانوں کی ناحق حکمرانی ہے، وہی چیزیں جو چار ہزار سال پہلے، دو ہزار سال پہلے کسی اور شکل میں پائی جاتی تھیں۔ آج بھی انسانیت انہی مشکلات کا شکار ہے اور صرف ان کی شکل میں تبدیلی آئی ہے۔
غدیر اس سلسلے کا آغاز تھا جو بنی نوع انسان کو اس مرحلے سے باہر نکال کر نئے مرحلے میں داخل کرنے کی بھرپور صلاحیت کا مالک تھا۔ ایسی صورت میں (نئے مرحلے میں) انسان کو درپیش چیلنجز زیادہ اعلی اور ظریف قسم کی ضروریات اور اعلی مرتبہ کی خواہشات اور محبتوں پر مشتمل ہونے تھے۔
انسان کی ترقی کا راستہ تو بند نہیں ہے۔ ممکن ہے بنی نوع انسان اگلے کئی ہزار یا کئی ملین سال تک جاری رہے۔ جب تک یہ انسانی نسل باقی رہے گی مسلسل ترقی کے مراحل طے کرتی رہے گی۔ البتہ آج ترقی کے بنیادی ستون تباہ حال ہیں۔ ان ستونوں کی تعمیر پیغمبر اکرم ص نے کی تھی اور ان کی حفاظت کیلئے اپنی جانشینی اور وصایت کا مسئلہ اٹھایا تھا۔
لیکن اس کی مخالفت کی گئی۔ اگر مخالفت نہ کی جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ غدیر یہ ہے۔ ائمہ طاہرین علیہم السلام کی زندگی کے اڑھائی سو سال کے دوران جب بھی انہیں موقع ملا ہے انہوں نے امت مسلمہ کو پیغمبر اکرم ص کے مقرر کردہ راستے پر واپس لوٹانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اب آج کے دور میں ہم میدان میں اترے ہیں اور خدا کے فضل اور توفیق الہی سے ہمت کر رہے ہیں جو انشاءاللہ بہترین انداز میں جاری رہے گی۔