لکھنؤ(نامہ نگار)گورکھپور کے انل یادو کو گذشتہ دنوں ٹراما سینٹر میں داخل کیا گیا تھا سڑک حادثہ کے شکار انل کے دونوں ہاتھوں میںسنگین چوٹ آئی تھی۔ کل دیر رات انل کو ٹراما سینٹر سے باہر کر دیا گیا۔ ٹراما سینٹر کے باہر رین بسیرا میں درد سے کراہ رہے انل کو طبی مدد چاہئے لیکن اس کا علاج نہیں ہو پا رہا
ہے۔
کانپور روڈ کی رہنے والی رشمی کی بیٹی ۳سالہ ساکشی چھت سے گر گئی تھی اس نے بیٹی کو لوک بندھو اسپتال میں داخل کرایا تھا۔ طبیعت خراب ہونے پر وہاں کے ڈاکٹروں نے ساکشی کو ٹراما سینٹر ریفر کر دیا۔ ٹراما آنے پر رشمی کو پتہ چلا کہ ہڑتال ہے اور کوئی بھی ڈاکٹر مریضوںکو دیکھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ کافی جدوجہد کے بعد اسے ۱۰۸؍ ایمبو لینس کی مدد سے بلرامپور اسپتال بھیجا گیا۔
سندیلہ کے موہت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک حادثہ میں موہت کے پیر کٹ گئے تھے وہ ٹراما سینٹر میں زیر علاج تھا لیکن ہڑتال کے تیسرے دن اسے ڈسچارج کر دیا گیا۔ تیمار دار ڈاکٹروں سے رحم کی بھیک مانگتے رہے کہ مریض کو علاج کی ضرورت ہے لیکن ڈاکٹروں نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ ہڑتال کی وجہ سے اس کا علاج نہیں ہو سکتااس لئے وہ کسی دیگر اسپتال میں علاج کرا لے۔ مایوس تیمار دار کافی دیر تک موہت کو لے کر باہر بیٹھے رہے۔
ریڈیو تھیریپی کی او پی ڈی میں آئی شاردا دیوی کو بھی دوشنبہ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ شاردا کا کہنا ہے کہ امبیڈکر نگر میں ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے پیٹ میں ٹیومر ہے۔ انہیں علاج کیلئے کے جی ایم یو جانا ہوگا۔ وہ یہاں جانچ اور علاج کیلئے آئی لیکن پتہ چلا کہ کے جی ایم یو میں تو ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے۔ شاردا وہیں رین بسیرا میں دن بھر بیٹھی رہی کہ شاید ہڑتال ختم ہو جائے اوروہ اپنی جانچ کرا لے۔
ہردوئی کی مونیکا میڈیسن کی او پی ڈی میں آئی تھی لیکن اسے بھی دیکھنے والا کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ مونیکاگاندھی وارڈ کے سامنے درخت کے نیچے بیٹھی وقت گزار رہی تھی۔
اس طرح کی تصویریں دوشنبہ کو ٹراما سینٹر میں دن بھر دیکھنے کو ملیں۔ ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے سبب ٹراماسینٹر میں مریضوں کی بھرتی بند تھی۔ صبح سے ہی مریض ٹراما سینٹر پہنچ رہے تھے لیکن انہیں یہ کہہ کر واپس کیا جا رہا تھا کہ ہڑتال ہے بھرتی نہیں کی جا سکتی۔ کچھ ایسے ہی نظارے گاندھی میموریل اسپتال کے اندر بھی تھے جہاں او پی ڈی بند ہونے سے مریضوںکو واپس جانا پڑ رہا تھا۔ جنرل او پی ڈی سے لے کر شعبوں میں چلنے والی سبھی او پی ڈی بند تھیں۔ گیٹ پر تالے لٹک رہے تھے اور ڈاکٹروں نے غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی تختیاں لٹکا رکھی تھیں۔
کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی کے ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے تیسرے دن مریضوںکی حالت خراب ہو گئی۔ دوشنبہ کو ڈاکٹر گذشتہ دو دنوں کی طرح مین گیٹ کے نزدیک سڑک پر بیٹھے اپنا احتجاج ظاہر کر رہے تھے تو دوسری جانب ٹراما سینٹر اور گاندھی میموریل اسپتال میں مریضوںکی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی۔ او پی ڈی بند کرنے کے ساتھ ہی ٹراما اور وارڈوں میں بھی مریضوں کو ایک ایک کر کے ڈسچارج کیا جا رہا تھا۔ دن بھر مریض ادھر سے ادھربھٹکتے رہے۔ جن مریضوںکو ایمبولینس وغیرہ مل گئی وہ تو ایمبولینس کے سہارے گئے اور جن کو نہیں ملی وہ لوڈر، رکشہ اور دیگر نجی گاڑیوں سے وہاں سے روانہ ہوئے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ مریضوںکو کسی دیگر اسپتال ریفر کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ ادھر میڈیکل یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی مریضوں کو راحت پہنچانے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ٹراما سینٹر کیمپس میں ایمبولینس کھڑی رہیں لیکن ان کی مدد سے نہ تو کسی مریض کو لایا گیا اور نہ ہی مریضوں کو دوسرے اسپتال پہنچایا ہی جا رہا تھا۔ رات تو جیسے تیسے کٹ گئی صبح ہوتے ہی ٹراما و اسپتال میں مریضوں کی آمد شروع ہو گئی۔ لیکن ایک ایک کر کے سبھی مریضوں کومایوس ہونا پڑا۔
ہردوئی سے آئی نیلم کا کہنا تھا کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ ہڑتال ہے۔ کینسر کے مریض پورن لال بریلی سے رات ہی لکھنؤ آئے اور صبح کے جی ایم یو پہنچے یہاں پہنچ کر انہیں پتہ چلا کہ ہڑتا ل ہے۔ مایوس پورن اور ان کے گھر والے سڑک کے کنارے بیٹھے رہے۔ گونڈہ کے محمد رفیق بھی آج ریڈیو تھیریپی کی او پی ڈی میں دوا لینے آئے تھے۔ وہیں حادثہ میں زخمی رخسانہ کو تیماردار سلطانپور سے لے کر آئے لیکن ٹراما پہنچنے پر انہیں مایوسی ہوئی۔ اس کے علاوہ عالم باغ کے دیپ راج یادو اور سانڈی کے عارف کو بھی ٹراما سینٹر سے باہر کر دیا گیا۔
پی جی آئی کے ریزیڈنٹ بھی آئے حمایت میں
کے جی ایم یو میں ڈاکٹروںکی ہڑتال کا اثر ایس جی پی آئی تک پہنچ گیا۔ کے جی ایم یو کے کچھ ڈاکٹروں نے پی جی آئی کے ریزیڈنٹ ڈاکٹروں سے بات کر کے حمایت مانگی۔ پی جی آئی کے ڈاکٹروں نے دوشنبہ کو ہڑتال تو نہیں کی لیکن اس بات کا امکان ضرور پیدا ہو گیا کہ وہ کل سے ہڑتال پر جا سکتے ہیں۔
وقت پر نہیں پہنچی ۱۰۸؍ایمبولینس
ٹراما سینٹر میں سنگین حالت میں باہر کئے گئے کئی مریض ایمبولینس کیلئے ۱۰۸ پر فون کرتے رہے لیکن وقت پر ایمبولینس نہیں آئی۔ تیمارداروں کا کہنا تھا کہ فون پر دوسری طرف سے اتنے سوال دریافت کئے جا رہے تھے کہ وہ اس کے جواب بھی نہیں دے سکے۔ انہوں نے بتایا کہ کئی مرتبہ فون کرنے کے بعد دوگھنٹے گزرنے کے بعدبھی ایمبولینس نہیں آئی۔
ٹیچرس ایسو سی ایشن نکالے گی امن مارچ
سنیچر کو پردہ سے پیچھے سے حمایت دینے والی کے جی ایم ٹیچرس ایسو سی ایشن آج سامنے آگئی۔ تنظیم کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر نعیم احمد نے کہا کہ اگر حکومت ریزیڈنٹ ڈاکٹروں کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرتی ہے تو میڈیکل یونیورسٹی کے ڈاکٹروںکا کام متاثر ہو جائے گا۔ ڈاکٹر نعیم احمد نے کہا کہ کل میڈیکل یونیورسٹی کے اساتذہ کے جی ایم یو کیمپس سے حضرت گنج واقع گاندھی جی کے مجسمہ تک امن مارچ نکالیںگے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ کوایک عرضداشت پیش کی جائے گی۔ حکومت کو طلباء کے مطالبات کو جلد از جلد قبول کر لینا چاہئے تاکہ مریضوںکو کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو۔