یقین کرنا مشکل ہوگا مگر نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 محض ہیپی برتھ ڈے گانے سے ایک سے دوسرے میں منتقل ہوسکتا ہے۔یہ دعویٰ سوئیڈن میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
لیونڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں جائزہ لیا گیا کہ گلوکاروں کے مختلف گانوں پر کتنی بڑی تعداد میں ذرات منہ سے خارج ہوتے ہیں۔پھر اس کا اطلاق کووڈ 19 کے پھیلاؤ سے کیا گیا۔
تحقیق کے لیے 12 صحت مند گلوکار اور 2 کووڈ 19 کے شکار افراد کی خدمات حاصل کی گئیں اور انہیں گانے کو کہا گیا تاکہ معلوم ہوسکے کہ گانے کے دوران وائرس والے کتنے ذرات خارج ہوتے ہیں۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ بلند سر اور ہم آہنگ گانے جیسے ہیپی برتھ ڈے سونگ سے بڑی تعداد میں ذرات ہوا میں شامل ہوتے ہیں۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ فیس ماسک کو پہننا، سماجی دوری کی مشق اور ہوا کی نکاسی کا اچھا نظام گانے کے دوران لوگوں میں وائرس کی منتقلی کا خطرہ کم کردیتا ہے۔
محققین نے کہا کہ انہیں اس تحقیق کا خیال اس وقت آیا جب کورس میں گانے اور کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے درمیان تعلق کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔تاہم اس حوالے سے اب تک تحقیقی کام نہیں ہوا تھا کہ جب کوئی گاتا ہے تو کتنے زیادہ ایروسول اور بڑے ذرات خارج ہوتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ گلوکاروں کو خاموش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسے طریقے موجود ہیں جس سے کووڈ 19 کے پھیلاؤ کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔
محققین نے مشورہ دیا کہ لوگوں کو احتیاطی تدابیر جیسے سماجی دوری، ہاتھوں کی اچھی صفائی اور فیس ماسک پر عمل کرنا چاہیے، جبکہ ہوا کی نکاسی کا نظام بہتر کیا جانا چاہیے تاکہ ہوا میں وائرل ذرات کا اجتماع کم ہوسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گلوکاروں کو بھی فیس ماسک پہننا چاہیے تاکہ کسی قسم کا خطرہ پیدا ہو نہ۔جریدے جرنل ایروسول سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ہیپی برتھ ڈے گانا کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ہیپی برتھ ڈے کے حروف بی اور پی کی ادائیگی کے دوران بہت بڑے ذرات منہ سے خارج ہوتے ہیں۔
تحقیق کے لیے گلوکاروں کو صاف ایئر سوٹ پہننے کا کہا گیا اور ایک خاص طور پر تعمیر کیے گئے چیمبر میں داخل ہونے کا کہا گیا جہاں فلٹر اور ذرات سے پاک ہوا موجود تھی۔
پھر محققین نے تجربے کے دوران ہر گلوکار کی جانب سے بولنے، سانس لینے، مختلف انداز سے گانے اور فیس ماسک پہن کر گانے کے دوران ذرات کے اخراج کا تجزیہ کای گیا۔
ان گلوکاروں کو سوئیڈن کا ایک مختصر گانے کا کہا گیا جس میں بی اور پی حروف کا استعمال بہت زیادہ ہوا تھا اور 2 منٹ میں اسے 12 بار دہرایا گیا۔محققین نے دریافت کیا گیا کہ ایسے گانے جن میں بی اور پی یا یوں کہہ لیں ب یا پ زیادہ ہوتے ہیں، ان سے کووڈ 19 کا خطرہ بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ گلوکار جتنی بلند آواز میں گائے گا، اتنے زیادہ ایرول سول اور ذرات ہوا میں جمع ہوں گے۔
خیال رہے کہ اس وبا کے آغاز سے ہی سائنسدان اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ کووڈ 19 مریض کی کھانسی یا چھینک کے علاوہ بولنے یا سانس لینے سے خارج ہونے والے ننھے ذرات کے ذریعے لوگوں میں منتقل ہوتی رہی ہے۔
جولائی میں امریکا کی نبراسکا یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار ثابت کیا گیا کہ کورونا وائرس کے 5 مائیکرون سے کم حجم کے ننھے ذرات لیبارٹری کے ماحول میں پھیل سکتے ہیں۔
آسان الفاظ میں کھانسی اور چھینک کی بجائے صرف بات کرنے اور سانس لینے سے بھی یہ وائرس ایک سے دوسرے فرد تک منتقل ہوسکتا ہے۔
اسی طرح تحقیق میں 2 افراد کے درمیان 2 میٹر کے فاصلے کی دوری کو بھی غیر محفوظ قرار دیا گیا کیونکہ یہ ننھے ذرات اس سے بھی زیادہ دور تک سفر کرسکتے ہیں۔
medrxiv.org میں شائع تحقیق ان ماہرین کی تھی جن کی جانب سے مارچ میں ثابت کیا گیا تھا کہ یہ وائرس ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں میں ہوا میں موجود ہوتا ہے۔
نبراسکا یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جوشوا سانتاپیا نے اے ایف پی کو بتایا کہ درحقیقت اس طرح کے نمونوں کو اکٹھا کرنا بہت مشکل ہے۔
اس کی جانچ پڑتال کے لیے محققین کی جانب سے موبائل فون کے حجم کی ایک ڈیوائس کو استعمال کیا گیا تاکہ دریافت کیا جاسکے کہ بات کرنے اور سانس لینے کے دوران جو ذرات خارج ہوتے ہیں، وہ کس حد تک دیگر افراد کو متاثر کرسکتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے کورونا وائرس کے مریضوں کے 5 کمروں سے نمونے حاصل کیے گئے اور اس کے لیے جو بلندی تھی وہ 30 سینٹی میٹر تک تھی۔
محققین نے بات کرنے کے دوران خارج ہونے والے ننھے ذرات کو ریکارڈ کیا گیا، کھانسی کے بعد کے نمونے بھی اکٹھے ہوئے جبکہ ماہرین ایک مائیکرون کے حجم جتنے ننھے ذرات بھی اکٹھے کرنے میں کامیاب رہے۔
ان نمونوں کو لیبارٹری میں رکھ کر دیکھا گیا کہ وہ کس طرح اپنی نقول بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور 18 میں سے 3 ایسا کرنے میں کامیااب بھی ہوئے۔
اس سے محققین کو عندیہ ملا کہ بات کرنے اور سانس لینے کے دوران خارج ہونے والے انتہائی ننھے ذرات بھی لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے یں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ خلیات میں اپنی نقول بناسکتے ہیں اور متعدی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ مریض جب بات کرتے ہیں تو ننھے ذرات ہوا میں کئی گھنٹوں تک معطل رہتے ہیں جن کو ایروسول کہا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ سائنسدانوں کے زور دینے پر 7 جولائی کو عالمی ادارہ صحت نے ہوا کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے اپنے موقف کو کسی حد تک تبدیل کرتے ہوئے مخصوص ماحول میں ایسا ممکن قرار دیا تھا۔