مقتدیٰ حسن فاضلی یعنی ‘ندا’ فاضلی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ مشہور شاعر رہے ہیں۔ ان کی غزلیں ان کی شخصیت کا آئینہ ہیں جو آج بھی ان کے ہونے کا احساس کراتی ہیں۔ آج یعنی 12 اکتوبر کو ان کی سالگرہ ہے۔
اس موقع پر ندا فاضلی کی زندگی کے کچھ اہم پہلو ساجھا کئے ان کی اہلیہ اور گلوکارہ مالتی جوشی فاضلی نے۔ انہوں نے ندا فاضلی کے ساتھ زندگی کا ایک طویل سفر طئے کیا اور ان کی زندگی کے ہر پہلو سے وہ واقف ہیں۔ ندا فاضلی کی زندگی کے اہم پہلووں پر چند باتیں، یادیں پیش ہیں انہی کی زبانی۔
غزل کے بہانے محبت کا اظہار
ندا صاحب الگ ہی شخصیت کے انسان تھے۔ محبت کا اظہار کرنے میں طویل وقت لیا۔ اس بارے میں مالتی جوشی بتاتی ہیں ‘ جب شادی کی تجویز انہوں نے دی تھی تو وہ بھی غزل کے بہانے۔ وہ زیادہ بات نہیں کرتے تھے۔ جو بھی ان کا موڈ ہوتا تھا وہ شاعری ہی میں بیان کرتے تھے۔ چاہے دکھ ہو، خوشی ہو یا محبت کا کوئی جذبہ ہو وہ شاعری میں ہی اپنے جذبات لکھنے کے عادی تھے۔
انہوں نے کبھی شادی کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا مجھ سے۔ مگر ایک غزل ضرور لکھ کر میرے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ غزل ایسی لکھی کہ پوری بات اس میں سما گئی تھی۔ ‘ ممکن ہے سفر ہو آساں اب ساتھ بھی چل کر دیکھیں، کچھ تم بھی بدل کر دیکھو کچھ ہم بھی بدل کر دیکھیں’ اور ان کی اسی غزل کو دیکھ کر میری سمجھ میں آ گیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں’۔
الگ ہو کر بھی ایک تھے ہم
”ندا صاحب کا اکثر جب موڈ بنتا تھا تو وہ چکن اور مٹن بنایا کرتے تھے اور بہت اچھا بنایا کرتے تھے۔ جیسا کہ ان کے دوست کہتے تھے۔ کیوں کہ میں سبزی کھانا پسند کرتی ہوں، اس لئے اس میں میرا ساتھ تو انہیں نہیں ملتا تھا، مگر وہ اکثر اپنے دوستوں کو بلا کر ضرور دعوتیں کیا کرتے تھے۔
حالانکہ، کبھی انہوں نے مجھ سے کہا بھی نہیں کہ میں ساتھ میں کھاوں یا بناوں۔ میں اپنا الگ ویجیٹیرین کھانا بنا لیا کرتی تھی۔ اس طرح کچھ عادتوں میں الگ ہو کر بھی ہم دونوں ایک ہی تھے”۔
بغاوت کر کے کی شادی
‘ان کا کلام ‘ دل میں نہ ہو جرات تو محبت نہیں ملتی، خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی’۔ ان کی یہ غزل ایک طرح سے بغاوت کے طور پر لکھی گئی ہے۔ ان کے کنبے کے لوگ ہماری شادی کے بالکل خلاف تھے۔ ایسے حالات میں اس شادی کے لئے ندا صاحب کو اپنے کنبے سے بغاوت کرنی پڑی تھی’۔