پیرس: فرانس میں ٹیچر کا سر کاٹ کر معاملے میں مشتبہ ایک چیچنیا کا لڑکا تھا۔ فرانسیسی اینٹی ٹیررزم پراسیکیوٹر آفس نے بتایا ہے کہ جمعے کو کانفلینس سینٹ۔ہونورن میں سیموئل پیٹی کا بے رحمانہ قتل کے معاملے میں حملہ کے آور دادا، والدین کے 17 سالہ بھائی سمیت 9 مشتبہ کو گرفتار کیا ہے۔
افسران نے بتایا کہ پیرس کے پاس ہوئے ایک حملے مین ایک ہسٹری ٹیچر کے قتل کے بعد پولیس کے ذریعے جس مشتبہ کو گولی ماری گئی تھی وہ چیچنیا کا 18 سال کا ایک لڑکا تھا۔
ٹیچر نے برہنہ تصویر دکھا کر کہا تھا، یہ پیغمبر ہیں
پراسیکیوٹر کے مطابق حملہ آور لڑکے کے والد کو آفیسر پہلے سے ہی جانتے تھے کیونکہ اس کی سوتیلی بہن 2014 میں اسلامی دہشت گرد گروپ (آئی ایس، روس میں پابندی عائد) میں شامل ہو گئی تھی۔ حال ہی میں کے والد نے ٹویٹر پر ایک ویڈیو بھی پوسٹ کیا تھا۔ پوسٹ کئے گئے اس ویڈیو میں اس شخص نے خود کو ایک اسٹوڈینٹ کے والد کے طور پر بیان کرتے ہوئے یہ دعوی کہ ہسٹری ٹیچر پیٹی نے طلبا کو ایک برہنہ شخص کی شبیہ دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کا پیغمبر تھا۔
حملہ آور کے وادل نے سنایا پورا واقعہ
ویڈیو میں اس کے بعد حملہ آور کے والد نے پورا واقعہ بتایا کہ کس طرح ٹیچر نے فوٹو دکھانے سے پہلے مسلم بچوں کو اپنا ہاتھ اٹھانے اور اس کے بعد کلاس سے باہر جانے کیلئے کہا کہونکہ ٹیچر نے بچوں کو کچھ چونکانے والا دکھانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے بعد حملہ آور کے والد نے ویڈیو میں سوال اٹھایا کہ وہ ٹیچر بچوں کو کیا پیغام دینا چاہتا تھا؟ کس طرح کی بفرت ہے؟
پولیس افسران نے بتایا کہ ہسٹری ٹیچر پیٹی نے اپنے کلاس میں اسلام کے پیغمبر محمد صاحب کے کارٹون پر چرچا کی جس کے سبب ایک بچے کے والدین نے ان کی شکایت کی اور انہیں دھمکی بھی دی۔ اسلام میں بت پرستی کی ممانعت کی وجہ سے پیغمبر محمد کی شبیہ کو بنانے پر پابندی ہے۔ پراسیکیوٹر کے دفتر نے کہا کہ نے قتل کے معاملے میں جانچ شروع کر دی ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں اپنے طلبا کو پیغمبر محمدکا کارٹون دکھانے والے استاذ کا اسکول کے باہر سر کاٹ دیا گیا۔ صدر ایمونئل میکرون نے اسے اسلامی دہشت گردانہ حملہ بتایا۔ ٹیچر کا سر کاٹنے والے حملہ آور کو گرفتار کرنے کی کوشش میں پولیس نے اسے گولی مار دی۔ پولیس کی گولی لگنے سے حملہ آور کی موت ہو گئی۔ پولیس کے ایک ذرائع نے بتایا کہ جس طرح اکثر جہادی حملوں میں اللہ اکبر کی چیخ سنائی پڑتی ہے اسی طرح جب پولیس اس حملہ آور کی پکڑنے کیلئے آگے بڑھی تب وی بھی اللہ اکبر چلایا۔
فرانس کی راجدھانی سے تیس کلو میٹر دور پیش آئی واردات
یہ معاملہ فرانس کی راجدھانی پیرس سے تقریبا 30 کلو میٹر (20 میل) کی دوری پر شمال مغربی مضافاتی علاقے کانفلینس سینٹ۔ہونورن کے ایک مڈل اسکول کے باہر پیش آیا۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ اسکول کے پاس ایک مشتبہ شخص کے بارے میں کال ملنے کے بعد پولیس جائے حادثہ پر پہنچی تھی۔ انہیں وہاں ٹیچر کی لاش ملی جلد ہی انہوں نے مشتبہ حملہ آور کو ڈھونڈ لیا جس کے ہاتھ میں اس وقت بلیڈ تھا۔ پولیس نے حملہ آور کو جب پکڑنے کی کوشش کی تو اس نے انہیں دھمکی دی۔ پولیس نے اسے پکڑنے کیلئے گولی چلائی اور اسے شدید طور سے زخمی کر دیا لیکن بعد میں اس کی موت ہوگئی۔
ٹیچر پڑھاتا تھا۔۔
اس حملے میں مارے گئے ٹیچر تاریخ پڑھاتے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں بچوں کے ساتھ پر چرچا کرتے ہوئے انہوں نے پیغمبر محمد کے کارٹون دکھائے۔ اسکول میں ایک اسٹوڈینٹ کے والدین نے بتایا کہ ٹیچر نے کارٹو دکھانے سے پہلے مسلم طلبا کو کمرے سے باہر جانے کیلئے کہہ کر تنازعہ چھیڑ دیا تھا۔
ایک عدالتی ذرائع نے سنچر کو اے ایف پی (AFP) کو بتایا کہ ایک نابالغ سمیت چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ سب حملہ آور سے جڑے ہوئے تھے۔
فرانس میں 2015 میں بھی ہوئے تھے ایسے حملے
فرانس مین سال 2015 میں میزگزین شارلی ابدو اور راجدھانی میں ایک یہودی سپر مارکیٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد سے اسلامی تشدد کی لہر مسلسل کسی نہ کسی شکل میں نظر آرہی ہے۔ فرینچ اینٹی ٹیرر پراسیکیوٹر اس حملے میں ہوئےقتل کو ایک دہشت گرد تنظیم سے جو ڑ کر دیکھ رہے ہیں۔
ملک کے صدر ایمونئل میکرون نے جائے وقوع کا جائزہ لیا اور اس حملے سے مایوس اور حیرت زدہ نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ قتل نے ایک اسلامی دہشت گردانہ حملے کی بانگی پیش کی ہے۔ انہوں نے اساتذہ کی سکیورٹی کو اپنی ترجیح بتاتے ہوئے کہا کہ پورا ملک ٹیچرس کے تحفظ کیلئے تہار رہے اور قدامت پرستی کبھی نہیں جیت سکے گی۔ وہیں وزیر تعلیم جین مشیل بلینکر نے بھی حملے پر ایک ٹویٹ کیا کہ جمہوریت پر حملہ ہورہا ہے۔