لکھنؤ(نامہ نگار)حسن گنج علاقہ میں رہنے والی کال سینٹر میںملازم خاتون کو آج صبح اس کے گھر کے نزدیک ہی کچھ لوگوں نے چاقو مار دیا۔ زخمی خاتون کسی طرح گھر پہنچی۔ گھر والے اسے بلرامپور اسپتال لے کر پہنچے جہاں ڈاکٹروں نے خاتون کو مردہ قرار دے دیا۔ فی الحال اس معاملہ میں نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔
ایس پی گومتی پار حبیب الحسن نے بتایا کہ کھدرا کی رم بغیہ میں رہنے والے ٹیلر شکیل احمد کی ۲۰۰۲ء میں سندیلہ کے جلیل احمد کی ۲۸سالہ بیٹی شبنم سے ہوئی تھی۔ شکیل اورشبنم کے تین بیٹے ۹سالہ فہد، ۸سالہ اکبر اور داؤد ہیں۔ اکبر اور داؤد جڑوا بھائی ہیں۔ شکیل گھر میں ہی سلائی کا کام کرتا ہے جبکہ شبنم حضرت گنج شکتی بھون کے پیچھے واقع ایجز نام کے کال سینٹر میں بطور کالر کام کرتی تھی۔ شبنم کی روزصبح ۶بجے سے ڈیوٹی ہوتی تھی۔ آج صبح شبنم تقریباً ۳۰:۵بجے گھر سے پیدل ہی ڈیوٹی کیلئے نکلی۔ بتایا جاتا ہے کہ گھر کے نزدیک ہی گلی میں قبرستان کے نزدیک کچھ لوگوں نے پیچھے سے شبنم کی پیٹھ اور گردن پر چاقو سے حملہ کر دیا۔خون سے لتھ پتھ شبنم کسی طرح اپنی جان بچا کر گھر پہنچی اور گھر کے
اندر ہی بیہوش ہوکر گر پڑی۔ شبنم کو خون سے لتھ پتھ دیکھ کر کنبہ کے لوگ فوراً بلرامپور اسپتال لے کر پہنچے جہاں ڈاکٹروں نے شبنم کو مردہ قرار دے دیا۔ اطلاع ملتے ہی موقع پر حسن گنج پولیس ، سی او مہا نگرڈی کے رائے، ایس پی گومتی پار حبیب الحسن، ڈاگ اسکوائڈ اور فنگر پرنٹ ٹیم بھی پہنچ گئی۔ تفتیش کے بعد حسن گنج پولیس نے شبنم کی لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے بھیج دیا۔
شبنم کے قتل معاملہ میں اس کے شوہر شکیل نے نامعلوم افراد کے خلاف قتل کی رپورٹ درج کرائی ہے۔ کنبہ کے لوگوں نے کسی پر کوئی شک نہیں ظاہر کیا ہے۔ شبنم کے شوہر شکیل نے بتایا کہ ایک سال سے شبنم کال سینٹر میں کام کر رہی تھی۔ شکیل اس کو چھوڑنے جایا کرتا تھا۔ تقریباً ۴-۵دن سے شکیل بیوی کو چھوڑنے نہیں جا رہا تھا۔ شکیل نے بتایا کہ قبرستان کے نزدیک جہاںشبنم کو چاقو مارا گیا شبنم ادھر سے کبھی جاتی ہی نہیں تھی۔ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یا تو قاتل شبنم کو ادھر گھسیٹ کے لے گئے یا پھر شبنم اپنی جان بچانے کیلئے قبرستان کی طرف بھاگی اور پھر اس پر حملہ کیا گیا۔شبنم کے گھر کے آس پاس کی گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ وہاں سے صرف ایک بار میں ایک ہی موٹرسائیکل نکل سکتی ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ نہ تو ان لوگوں نے کسی موٹرسائیکل کی آواز سنی اور نہ ہی شور وشرابہ۔ اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ واردات کو انجام دینے والا نہ صرف شبنم کو پہلے سے پہچانتا تھا بلکہ علاقے کی گلیوں سے بھی واقف تھا۔