فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو سمجھتے ہیں جو گستاخانہ خاکے دکھائے جانے پر صدمے میں ہیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ بنیاد پرست اسلام، جس کے خلاف وہ لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، تمام لوگوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے خطرہ ہے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کو انٹرویو کے دوران ایمانوئیل میکرون نے کہا کہ ’گستاخانہ خاکے حکومت کا منصوبہ نہیں بلکہ آزاد اخبارات کا منصوبہ تھا جو حکومت سے منسلک نہیں ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ردعمل جھوٹ اور میرے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے نتیجے میں آیا کیونکہ لوگوں نے سمجھا کہ میں گستاخانہ خاکوں کی حمایت کرتا ہوں‘۔
فرانسیسی صدر نے کہا کہ ’جن جذبات کا اظہار کیا گیا میں انہیں سمجھتا ہوں اور ان کا احترام کرتا ہوں، لیکن آپ کو اس وقت میرے کردار کو بھی سمجھنا چاہیے جو دو چیزیں کرنا ہے، ایک تحمل کو فروغ دینے اور دوسرا ان حقوق کا تحفظ کرنا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلام کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں اور مذہب کے نام پر، جس کا وہ دفاع کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اسے قتل اور صبح کر رہے ہیں، آج چند شرپسند تحاریک اور افراد کی جانب سے اسلام کے نام پر تشدد کو فروغ دیا جارہا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’یقیناً یہ اسلام کے لیے مسئلہ ہے کیونکہ مسلمان اس کے سب سے زیادہ شکار بنتے ہیں، دہشت گردی سے 80 فیصد سے زائد متاثرہ افراد مسلمان ہیں اور یہ ہم سب کے لیے مسئلہ ہے‘۔
واضح رہے کہ ایمانوئیل میکرون کی جانب سے یہ بیان گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانسیسی حکومت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے بعد سامنے آیا ہے۔
فرانس کے جریدے ’چارلی ہیبڈو‘ نے 2015 میں اپنے عملے پر جان لیوا حملے کے ملزمان کے ٹرائل کے آغاز کے بعد حال ہی میں دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے۔
ایمانوئیل میکرون نے آزادی اظہار رائے کے تحت گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا دفاع کیا تھا۔
2 اکتوبر کو انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام عالمی سطح پر بحران کا شکار ہے اور ’اسلام میں اصلاحات‘ لانے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا تھا، تاکہ اسے ملک کی جمہوری اقدار کے موافق بنایا جاسکے۔
رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک قرار دیا گیا تھا۔
اگرچہ فرانس کے مسلمانوں نے قتل کے اس واقعے کی مذمت کی تھی لیکن حکومت کی طرف سے اسلامی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن اور مشتعل گروپوں کی جانب سے مساجد پر حملوں کے باعث انہوں نے اجتماعی سزا کا خوف ظاہر کیا تھا۔
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو ‘ہیرو’ اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو ‘مجسم’ بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا۔
پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔
استاد کی یاد میں منعقدہ تقریب میں فرانس کے صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے‘۔
ان کے اس بیان کے بعد پوری مسلم دنیا میں شدید غم و غصہ پھیل گیا اور مسلم اور اکثریتی آبادی والے ممالک میں فرانس کے خلاف مظاہرے کیے گئے، جبکہ کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا بھی آغاز ہوگیا۔