بھارت کے شہر میرٹھ کی ایک یونیورسٹی میں بعض کشمیری طلبہ کو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی پذیرائی کرنے اور پاکستانی بلے بازوں کی شاٹس پر تالیاں بجانے کی پاداش میں ملک سے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔
ساٹھ سے زیادہ کشمیری طلبہ کو یونیورسٹی سے معطل کر دیا گیا اور وہ فوری طور پر میرٹھ سے واپس کشمیر بھیج دیے گئے ہیں۔
بھارتی میڈیا نے ان طلبہ کے خلاف درج کرائی گئی رپورٹوں اور سرکاری اہلکاروں کے حوالے سے جو خبریں شائع کیں ان کے مطابق ان طلبہ نے بھارت اور پاکستان کے میچ کے دوران نہ صرف یہ کہ پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں کے رنز بنانے پر تالیاں بجائیں بلکہ انہوں نے پاکستان کی جیت پر مٹھائیاں تقسیم کیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ۔
یونیورسٹی سے معطل کیے جانے کے بعد کشمیر پہنچنے والے یہ طلبہ کافی خوفزدہ ہیں۔ وہاں پر انہوں نے جو بتایا ہے وہ میڈیا میں دی گئی خبروں سے مختلف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی بھارتی ٹیم شکست کی طرف بڑھنے لگی بعض ہندو طلبہ انتہائی مشتعل ہو گئے اور ٹیم کی شکست کے بعد وہ کشمیری طلبہ کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے۔ بعد میں انہوں نے ہوسٹل پر پتھراؤ بھی کیا۔
ان کے بیان کے مطابق بعض طلبہ نے پاکستانی کھلاڑیوں کی اچھی شاٹس پر کبھی کبھی تالیاں بھی بجائی تھیں۔
حب الوطنی کا اظہار
دلچسپ بات یہ ہے مسلمانوں پر پاکستان حامی ہونے کا الزام تو لگتا رہا ہے لیکن انہیں کبھی بنگلہ دیش حامی یا سعودی نواز نہیں کہا جاتا۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ پاکستان بھارت کی قوم پرستی کا محور ہے۔ اگر پاکستان نہ ہو تو بہت سے لوگ یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ حب الوطنی کا اظہار کیسے ہو۔
اس واقعے کے بعد ساٹھ سے زیادہ طلبہ یونیورسٹی سے واپس بھیج دیے گئے ہیں۔ اگر یونیورسٹی نے اس کا کوئی حل تلاش کیا تو شاید ان کی واپسی کا کوئی راستہ نکل آئے ورنہ ان طلبہ کا کریئر کم از کم میرٹھ کی اس یونیورسٹی میں تو ختم ہو چکا ہے۔
بھارت میں نفرت کی قوم پرستی سب بڑا استعارہ ہے۔ جارحانہ قوم پرستی کو پاکستان کے نام سے جِلا ملتی ہے ۔ کچھ عرصے پہلے میڈیا میں اکثر اس طرح کی خبریں شائع ہوتی تھیں کہ مسلمانوں کی ایک بستی میں پاکستان کی جیت پر پٹاخے چھوڑے گئے۔ ماضی میں اسی طرح کی آتش بازیوں اور مٹھائیوں کی تقسیم کی افواہوں پر فسادات بھی ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے سلسلے میں اور خاص طور سے کرکٹ کے معاملے میں شمالی بھارت میں مسلمانوں کی وفاداری کو ہمیشہ شک کی نطر سے دیکھا جاتا رہا ہے حالانکہ وقت کے ساتھ اس سوچ میں کچھ حد تک کمی آئی ہے اور مسلمانوں میں بھی پہلے سے کہیں زیادہ پراعتمادی پیدا ہوئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے مسلمانوں پر پاکستان حامی ہونے کا الزام تو لگتا رہا ہے لیکن انہیں کبھی بنگلہ دیش حامی یا سعودی نواز نہیں کہا جاتا۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ پاکستان بھارت کی قوم پرستی کا محور ہے۔ اگر پاکستان نہ ہو تو بہت سے لوگ یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ حب الوطنی کا اظہار کیسے ہو۔
واقعے کے بعد ساٹھ سے زیادہ طلبہ یونیورسٹی سے واپس کشمیر بھیج دیے گئے ہیں
جہاں تک کشمیر کا سوال ہے وہاں آزادی کے وقت سے ہی تین طرح کے خیالات متوازی لائنوں پر چلتے رہے ہیں۔
پہلی سوچ کی نمائندگی وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں ہند نواز کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کشمیر کو ابتدا سے ہی بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں۔دوسرے زمرے میں وہ لوگ ہیں جو کشمیر کو ایک آزاد مملکت بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور تیسرے زمرے میں وہ ہیں جو کشمیر کا پاکستان سے انضمام چاہتے ہیں۔
کشمیریوں کی ایک خاصی تعداد سیاسی وجوہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کی حمایت کرتی رہی ہے اور اگر ان سبھی پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے تو شاید یہ ایک سیاسی بحران بن جائے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی ایک خاصی تعداد پاکستان حامی ہے لیکن ان پر غداری کا مقدمہ چلانا اور طلبہ کو معطل کرنا حقیقت سے انکار کرنے کے مترادف ہے کیونکہ جارحانہ قوم پرستی کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی۔