کینسر کی دوا خریدنے پر قدغن لگانے والا امریکہ کیسے کرونا ویکسین ایران کو بیچنے کے زور لگا رہا ہے، یہ سوال ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے رکن نے اٹھایا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے صحت کمیشن کے رکن “محسن علیجانی” نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی حکام ایران کو کینسر کے علاج کے لئے ادویات فراہم کرنے کے تیار نہیں ہیں تو وہ کس طرح سے ایران کو کرونا ویکسین فروخت کرنے کی فکر میں ہيں۔
محسن علیجانی نے امریکہ اور برطانیہ سے ویکسین درآمد نہ کئے جانے پر مبنی رہبر انقلاب اسلامی کے دستور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ماہرین، امریکی ویکسین کے مطلوبہ نتایج سے راضی نہیں ہیں۔
محسن علیجانی نے کہا کہ ایران ہرگز غیرملکی ویکسین ٹیسٹ کئے جانے کی لبارٹری نہیں بنے گا۔ ان کہنا تھا کہ امریکی ویکسین کی خود امریکہ اور مغربی ملکوں میں آزمائش نہيں کی جا رہی ہے، امریکہ دوسروں ملکوں میں اس کی آزمائش کرنے کی فکر میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے حالیہ چند برسوں کے دوران ایران کے خلاف ہر طرح کی پابندیاں لگائیں، تیل کی فروخت، بینکاری، ادویات پر پابندی حتی کینسر کے مریضوں کے لئے ضروری دواؤں کو ایران میں داخل ہونے سے روک رہا ہے، لیکن کرونا ویکسین کی فروخت کرنے کے لئے تلا بیٹھا ہے۔
محسن علیجانی نے کہا کہ ہمیں امریکہ اور برطانیہ پر اعتماد نہیں ہے اور ہم ان دونوں ملکوں سے ویکسین کی خریداری کو ممنوع قرار ديئے جانے کے فیصلے پر رہبر انقلاب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
محسن علیجانی نے کہا یقین رکھیں کہ اگر ویکسین کے نتايج مثبت ہوتے تو جب تک ان کی اپنی ضروریات پوری نہ ہو جاتیں تب تک وہ ہمیں ویکسین بیچنے پر ہرگز تیار نہ ہوتے۔
ایرانی پارلیمنٹ میں صحت کمیشن کے رکن نے کہا ایرانی ویکسین اور ایران اور کیوبا کا مشترکہ ویکسین رواں سال کے مارچ تک آ جائے گا اور اس وقت تک ہم ہندوستان، چین اور روس جیسے ملکوں کے ویکسین کا جائزہ لینے کے بعد ہی ان کی خریداری کا قطعی فیصلہ کر سکتے ہیں۔