—ڈاکٹر سیفی سرونجی
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ اکیسویں صدی اردو ناول کی صدی ہوگی— اس لیے کہ پچھلے چند سالوں میں اتنے خوبصورت معیاری ناول لکھے گئے ہیں کہ اردو ادب میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں— ان میں سے چند ناول نگاروں پر ہم پہلے بھی گفتگو کرچکے ہیں— غضنفر کا مانجھی، رحمن عباس کا خدا کے سائے میں آنکھ مچولی، انل ٹھکر کا رشتے، وغیرہ— ابھی ان معتبر ناول نگاروں پر گفتگو کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ رحمن عباس کے تین ناول، نورالحسنین کا ایوانوں کے خوابیدہ چراغ، شائستہ فاخری کا نادیدہ بہاروں کے نشاں کے علاوہ مشرف عالم ذوقی کے دو بہت خوبصورت ضخیم ناول لے سانس بھی آہستہ، اور آتش رفتہ کا سراغ آگئے— یہ نئے ناول اس بات کا ثبوت ہیں کہ اکیسویں صدی ناول کی صدی ہوگی— ان تمام ناولوں میں ہم دیکھیں تو یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ ہمارے آج کے ناول نگاروں سے، زندگی سے جڑا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جسے پیش نہ کیا گیا ہو چاہے— وہ غضنفر ہوں، شوکت حیات ہوں یا عبدالصمد ہوں یا مشرف عالم ذوقی اور نورالحسنین ہوں— ان کے ناولوں میں تمام انسانوں کی زندگی اور ان کے مسائل کا احاطہ کیاگیا ہے۔ بقول رفیعہ شبنم عابدی:
”سماج کی بدعنوانیوں مکاریوں، عیاریوں، جبر تشدد اور ظلم وستم کی داستان ہمارے آج کے ناولوں کا مخصوص منظرنامہ ہے مگر کسی ازم یا مخصوص نظریہ کی عینک سے نہیں بلکہ اپنے اپنے زور قلم اور اپنی اپنی آنکھ کے کیمروں سے کھینچی۔“
اس وقت ہم نئی نسل کے سب سے بڑے فکشن نگار مشرف عالم ذوقی کے ایک ضخیم شاہکار ناول آتش رفتہ کا سراغ پر گفتگو کررہے ہیں— حالانکہ اس سے پہلے ان کے کئی ناول ادبی دنیا میں ہلچل پیدا کرچکے ہیں اور” آتش رفتہ کا سراغ“ سے پہلے ان کا بہت ہی معیاری ناول لے سانس بھی آہستہ مقبولیت کا رکارڈ قائم کرچکا ہے— لیکن میرے دل ودماغ پر” آتش رفتہ کا سراغ“چھایا ہوا ہے کہ اس ناول کو پڑھنے کے بعد لکھنا تو دور کی بات ہے میں ایک ہفتے تک سکتے میں رہا— اس لیے کہ جس موضوع پر یہ ناول ہے اس کے تمام کرداروں سے ہمارا روز واسطہ پڑتا ہے— ہر محفل میں، ہر آفس میں، بازاروں میں، دکانوں پر گویا ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں ہر طرف ایک خوف چھایا ہواہے— آج ہر مسلمان خوف کے سائے میں جی رہا ہے۔ مشرف عالم ذوقی نے آزادی کے بعد سے اب تک ان ۵۶ سالوں میں مسلمانوں پر کیا گزری ہے، اس کی مکمل داستان پیش کردی ہے— ذوقی کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ تلخ سچائی کو چیخ چیخ کر بیان کررہا ہے— ان ۵۶ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا— ان کی جائیداد ہڑپ کر لی گئی— ان کو نوکریوں سے باہر کردیا گیا— ان پر دہشت گردی کے طرح طرح کے الزام لگا کر انہیں جیلوں میں ٹھونس دیا گیا— انہیں ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا گیا ان کی وفاداری اور قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا— اور انہیں بیروزگاری اور جہالت کے اندھیروں میں پھینک دیاگیا— اور تعصب کا یہ عفریت ہر جگہ سرایت کر گیا کہ آج مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ، کوئی گھر محفوظ نہیں— مسلمان قدم قدم پر زندگی سے جوجھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں— یہ ناول ۵۶ برسوں کی، مسلمانوں کی بدحالی اوران کے استحصال کی ایک ایسی داستان ہے جس کے ایک ایک لفظ میں وہ تلخ سچائیاں ہیں کہ پڑھنے والا دیر تک نہیں، مہینوں تک ایک گہری سوچ میں مبتلا رہتا ہے اور اپنے مستقبل کے تانے بانے بننے پر بھی اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی— اس ناول کے دیباچے میں مشرف عالم ذوقی نے سب کچھ بیان کردیا ہے— ” آتش رفتہ کا سراغ“ میں جو مرکزی کردار ہے وہ ارشد پاشا ہے— ان کے علاوہ ارشد پاشا کا بھائی، والد اور ارشد پاشا کی بیوی رباب اور اس کا بیٹا اسامہ اور ایک خاص کردار ارشد پاشا کا عزیز ترین دوست، تھاپڑ— اس سے پہلے کہ میں اس ناول کے بارے میں آگے کچھ گفتگو کروں اس ناول کے بارے میں لکھے ہوئے دیباچے کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں جس سے کہ مشرف عالم ذوقی کو اس ناول کے لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی— وہ ہے بٹلہ ہاﺅس کا فرضی انکاﺅنٹر۔
”جامعہ یا بٹلہ ہاو¿س میں جو کچھ ہوا، وہ اچھا نہیں ہوا۔ شاید بہت سے لوگوں نے انکاو¿نٹر کے بعد کا وہ چہرہ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا ہے۔ رمضان کے مہینے میںہونے والی اس واردات نے علاقے کے تمام مسلمانوں کو جیسے کسی لاش میں تبدیل کر دیا تھا۔ پولیس کسی بھی وقت کسی کے بھی گھر دھمک جاتی تھی۔ یہ کہنے پر کہ بھائی، ہم تو پڑے لکھے لوگ ہیں۔ پولیس کا جواب ہوتا تھا ’تم جیسے پڑھے لکھے لوگ ہی یہ کارروائی کرتے ہو۔“ مالیگاو¿ں سے لے کر اعظم گڑھ تک کے تار دہشت گردوں سے جوڑ دیئے جاتے تھے۔ سب سے زیادہ نوجوان پریشان تھے۔ وہ گھر سے باہر نکل ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ دہشت اور خوف کہ پولیس کی کتوں جیسی آنکھیں کب ان کا شکار کر لیں، کہا نہیں جاسکتا۔ اسی ماحول میں عید جیسا دن بھی آیا۔ عید جسے خوشی کا دن کہتے ہیں۔ لیکن مسجدیں سنسان رہیں— ایک اطلاع کے مطابق کئی مسلم نوجوان اس دن مارے ڈر کے مسجد نہیں گئے۔ اس تحریر سے پہلے میں جامعہ اور بٹلہ ہاو¿س کے بہت سے لوگوں سے ملا۔ ایک تکلیف دہ بات اور بھی سامنے آئی۔ کچھ مسلم بچے جنہیں نئی نئی اپنی پرائیوٹ نوکری جوائن کرنے کا پیغام ملا تھا، انہیں نوکری پر آنے سے منع کر دیا گیا— شاید یہ بھیانک بات آپ کو معلوم ہو کہ آج بھی دلی سے ممبئی تک کسی بھی مسلمان کا اپنے لیے کرائے کا مکان تلاش کرنا ایک بے حد مشکل کام ہوتا ہے۔ عام طور پر مکان مالک کرایہ دار مسلمانوں کو اپنا گھر نہیں دینا چاہتے— جاوید اختر جیسے لوگوں کو بھی ممبئی میں اپنا گھر خریدنے پر خبر بننا پڑتا ہے— بھلے ہی ان باتوں کو فرقہ واریت سے جوڑا جائے لیکن یہی سچ ہے۔ جامعہ والی واردات کے بعد تو مسلمانوں کے لیے رہائشی مکانوں کی تلاش اور بھی مشکل کام ہوگیا ہے۔
اسی ملک میں وہ بھی ہوا ،شاید جس کو کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں لایا جاسکتا تھا— جو شاید بابری مسجد گرانے اور گودھرا کی واردات سے زیادہ شرمناک تھا۔ بٹلہ ہاو¿س فرضی انکاو¿نٹرزکی واردات کے کچھ ہی روز بعد ایک پورے محلے پر پابندی لگا دی گئی— ہماری گلوبل تہذیب کو کہیں نہ کہیں انٹرنیٹ یا فاسٹ فوڈ کلچر سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ انکاو¿نٹر کے بعد جو خبریں آئیں وہ دردناک تھیں۔ انٹر نیٹ ایجنسیوں نے نئے کنکشن دینے سے انکار کر دیا — یہاں تک کہ جنک فوڈ یا پزہ ڈلیور کرنے والوں نے کہا کہ ہم جامعہ میں ڈلیوری نہیں دیں گے۔ لیجئے نئی دنیا کے دروازے جامعہ کے لئے بند— وہ بھی ایک ایسے فرضی انکاو¿نٹر کے لیے، حکومت جس کی مصنفانہ جانچ تک کرانا نہیں چاہتی تھی—“
مشرف عالم ذوقی کے اس ناول میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی تمام نا انصافیوں اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو ناول کے کرداروں کے ذریعہ اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاگیا ہے کہ ناول ایسے خشک موضوع پر ہوتے ہوئے بھی ناول رہا —اور وہ بھی ایسا کہ ۵۶ برس تک مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی مکمل تاریخ بیان کردی گئی ہے اور پھر مشرف عالم ذوقی کو ناول کے فن پر جو قدرت حاصل ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے— ایک ایک جملے میں ذوقی نے وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو ایک کتاب یا ناول کے ایک باب میں کہا جاتا ہے— ان کے چست مکالمے، لفظوں کا استعمال اور طنزیہ انداز مل کر ناول کو ایک ایسا دلچسپ اور معیاری بنادیتے ہیں کہ قاری نہ چیخ سکتا ہے نہ اف کرسکتا ہے بس اندر ہی اندر دل پکڑ کر رہ جاتا ہے۔ ارشد پاشا جو کہ ناول کا مرکزی کردار ہے، اس کی بیوی رباب، اس کا دوست تھاپڑ اور بیٹا اسامہ کے ارد گرد گھومتی یہ کہانی ایسا موڑ لیتی ہے کہ سینکڑوں صفحات پر پھیلی ایک ایسی دل دہلادینے والی داستان بن جاتی ہے کہ انجام تک آتے آتے ایک پوری صدی کا پس منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے جب ارشد پاشا کا بیٹا اسامہ اور اس کے چند دوست جامعہ کے فٹ پاتھ پر چہل قدمی کرتے ہوئے گزرتے ہیں تو سامنے پولس چوکی سے چند سپاہی آوازیں کستے ہیں کہ— او آتنک وادی کہاں جارہے ہو— اس جملے پر اسامہ اور اس کے ساتھ بگڑتے ہیں کہ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ ہمیں آتنک وادی کہہ کر پکاریں— اس پر گالی گفتار ہوجاتی ہے اور بہت مشکل سے تمام دوست گھر آ جاتے ہیں— گھر والوں سے جب یہ تمام باتیں کہی جاتی ہیں تو گھر والے پریشان ہوجاتے ہیں — اور آنے والی مصیبت کے خوف سے ان کے چہرے اتر جاتے ہیں کہ خدا جانے اب کیا ہوگا— نوجوان گرفتار کئے جاتے ہیں تواسامہ اپنے باپ سے پوچھتا ہے کہ آپ ہمارا قصور بتائیے کہ ہم نے کیا کیا ہے— کیا ہمارا یہی گناہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں— ارشد پاشا کے پاس اس کے کسی سوال کا جواب نہیں ہوتا اور اس کے بعد جامعہ میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا— ان پر کیا گزری یہ ایک طویل داستان ہے— کتنے مسلمان نوجوان گرفتار لئے گئے— کئی گھروں سے فرار ہوگئے— انکاﺅنٹر ہوا— ایک مسلمان طالب علم کو انکاﺅنٹر کے نام پر شہید کردیا گیا— پورا جامعہ بٹلہ ہاﺅس پر اداسی چھاگئی— جس کی پوری عکاسی ناول میں دیکھی جاسکتی ہے— ایسے ماحول میں اسامہ کا گھر رہنا دشوار ہوگیا— ارشد پاشا کا دوست ایک سیکولر ذہن کا مالک تھا— ساری باتیں اپنے دوست تھاپڑ سے کہتا ہے— وہ کیا کرے— آخر کب تک ہم خوف کے سائے میں جیتے رہیں گے۔ کب تک ہم اپنی وفاداری کے ثبوت فراہم کرتے رہیں گے— نہ جانے کس گھڑی میں نے اپنے بیٹے کا نام اسامہ رکھ دیا اور کس کو معلوم تھا کہ اسامہ نام ایک گالی بن جائے گا— ایسے ماحول میں اسامہ اندر ہی اندر جلتا رہا اس کے سامنے ادھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس کا اپنے ہی ملک میں مستقبل ڈراﺅنا ہوگیا تھا کہ وہ کیا کرے— تھوڑے دن کے لیے ارشد پاشا نے اسامہ کو تھاپڑ کی حفاظت میں اس کے گھر بھیج دیا ادھر رتھ یاترا نے پورے ہندستان کا ماحول خراب کردیا تھا— جگہ جگہ فساد برپا ہورہے تھے— ہر شہر میں مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے تھے۔ انہیں موقع بے موقع پر پریشان کیا جارہا تھا۔ اسامہ جیسے مسلم نوجوانوں کا مستقبل تعصب کی بھینٹ چڑھ چکا تھا— نہ ان کے پاس نوکریاں تھیں— نہ ان کی زندگی محفوظ تھی—
اسامہ نے ان تمام باتوں کو کچھ زیادہ ہی محسوس کیاتھا اور ایک دن وہ اپنے باپ کے نام ایک خط لکھ کر ہمیشہ کے لیے گھر چھوڑ کر چلا گیا کہ میں اس سسٹم میں رہنا نہیں چاہتا— مجھے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی جائے— ماں باپ کا برا حال تھا— خاص طور پر ماں ہر وقت یہ کہتی کہ مجھے آپ کی سیاست یا سسٹم سے کوئی لینا دینا نہیں— مجھے اپنا بیٹا چاہئے— لیکن بہت تلاش کے بعد اس کا کہیں پتہ نہیں چلا— اس درمیان کئی چھوٹے موٹے واقعات ہوئے — جن میں مسلمانوں پر ظلم وستم کا ایک طویل نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہا— کئی مہینوں بعد پتہ چلتا ہے کہ اسامہ ایودھیا میں پنڈتوں کی ایک ٹولی کے ساتھ دیکھا گیا بابری مسجد کا فیصلہ آنے میں تھوڑا وقت تھا اور پورے ملک کا ماحول گرم تھا— فساد کہیں بھی کسی بھی شکل میں ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی— اسامہ ایسے ماحول میں ایودھیا میں وہ بھی پنڈتوں کے ساتھ وہاں کیا کر رہاہے، ہزاروں خیالات ارشد پاشا کو پریشان کررہے تھے—آخر وہ اپنے دوست تھاپڑ کے ساتھ ایودھیا اس کی تلاش میں نکل پڑے— جگہ جگہ تلاش کیا— مندر کے پجاریوں سے معلوم ہوا کہ وہ تو ایک دیوتا ہے سب کی سیوا کرتا ہے اور تعریف کی بات یہ ہے کہ ہم پوجا کرتے رہتے ہیں اور وہ نماز پڑھتارہتا ہے— ارشد پاشا اور تھاپڑ یہ سن کر حیران رہ گئے کہ یہ کیا کرنے والا ہے اس کے دماغ میں آخر کیا چل رہا ہے وہ سمجھنے سے قاصر تھے— پجاریوں نے بتایا کہ وہ تو ایک سنیاسی ہے— کہیں ایک جگہ نہیں رہ سکتا— اب وہ بدری ناتھ نکل گیا ہے— جہاں سے کہیں اور چلا جائے گا— تھاپڑ اور ارشد پاشا ہر شہر میں تلاش کرتے رہے اور ہر جگہ سے یہی خبر ملتی کہ وہ پنڈتوں کی ٹولی کے ساتھ آج ہی گیا ہے— آخر پریشان ہوکر ناکام واپس آگئے— ارشد کی پریشانیاں بڑھتی ر ہیں وہ بار بار تھاپڑ سے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں کہتاہے— آخر تھاپڑ بھی کیا کرے— وہ سمجھا تارہتا ہے کہ بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا ہے—
سب کی نگاہیں اس فیصلے پر ٹکی ہوئی ہےں کہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ تھاپڑ کہتا ہے کہ کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ فیصلہ تمہارے حق میں ہوگا اگر ایسا سوچتے ہو تو غلط سوچتے ہو— یہ فیصلہ تمہارے حق میں نہیں ہوگا— میں جانتا ہوں اگر یہ فیصلہ تمہارے حق میں ہوجائے تو تمہیں فائدہ ہوگا بلکہ اور جینا دشوار ہوجائے گا— اس لیے کہ تمام آر ایس ایس اور بھی دیگر سنگھی پارٹیوں نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ اگر فیصلہ ہمارے حق میں نہیں ہوا تو ہم آندولن کریں گے— اس لیے یہ تو بھول جاﺅ کہ فیصلہ تمہارے حق میں ہوگا— آخروہ دن بھی آگیا کہ فیصلہ آگیا اور ساری دنیا اس فیصلے پر حیران رہ گئی— سارے ثبوت اور دستاویز کام نہ آئے ادھر دوسری طرف مٹھائیاں تقسیم کی جانے لگیں…. جب تھاپڑ ارشد پاشا کے گھر آیا تو کچھ بدلا بدلا سا دکھائی دیا— اس سے پہلے ارشد پاشا نے اسے کبھی ایسا نہیں دیکھا تھا— ادھر بابری مسجد کے فیصلے سے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر تھی— بلکہ ایک بڑا حادثہ یہ ہوا کہ علوی کے والد کا فیصلہ سن کر ہی انتقال ہوگیا— محلے کے تمام لوگ جمع ہوکر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ یقینا یہ حادثہ علوی کے والد کے لیے بہت مہلک ثابت ہوا ایک تو ان کا بیٹا علوی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے اور اس فیصلے نے ان کی جان لے لی لوگوں نے اس موقع کو غنیمت جانا—یہ تجویز رکھی کہ ہم جنازہ اس وقت تک رکھیں گے جب تک ہمارے بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیل سے رہا نہیں کیا جائے گا— یہی موقع ہے ہمارے احتجاج کرنے کا— بیچ چوراہے پر لاش کو رکھ کر مسلمانوں سے اپیل کی جانے لگی کہ سب ایک جگہ جمع ہوکر احتجاج کریں گے— لوگ جوق در جوق جمع ہونے لگے— میڈیا والے اور پولس سے سارا میدان بھر گیا— ادھر ارشد پاشا کے سامنے تھاپڑ کچھ عجیب حالت میں تھا ارشد پاشا نے کہا— کیا یہی انصاف ہے— تھاپڑ اپنی تقریر جار رکھتے ہوئے کہتا ہے۔
”’ یہ آستھاﺅں کا دیش ہے— پھر انصاف میں ان آستھاﺅں کو تھوڑی سی جگہ کیوں نہیں مل سکتی ارشد پاشا —؟ یہ فیصلہ آستھا بنام انصاف کے نام ہے۔ بہت کچھ بدلا ہے۔ جو صورتحال ۸۱ برس پہلے تھی وہ اب نہیں ہے— مگر آستھائیں موجود ہیں۔ اور آستھائیں اس ملک کی شانتی بھنگ ہونے سے روکتی ہیں تو غلط کیا ہے ارشد پاشا— اٹھارہ سال پہلے صرف مندر مسجد کا معاملہ تھا اور جوش سے بھرے دیوانے تھے— لیکن ان اٹھارہ برسوں میں دنیا کے ساتھ اپنا ملک بھی بدلا ہے۔ انڈیا شائننگ بھلے بھگواپارٹی کا ایک باسی نعرہ بن کررہ گیا ہو، جسے اچھالنے کے باوجود وہ اپنی قسمت نہیں چمکا سکے— لیکن انڈیا شائن تو کررہا ہے۔ اورایک بڑی طاقت، ایک بڑی حقیقت تو بن چکا ہے— اٹھارہ برس بعد خوشحالی کی ریس میں دوڑتے ہوئے نوجوان ہیں— جو جانتے ہیں مسجد مندر سے روٹی نہیں ملنے والی— کیریئر نہیں بننے والا۔ اس لیے اس بار فیصلے کو لے کر میڈیا کے ہنگامے کے باوجود عام آدمی خاموش رہا— اورسب سے بڑی بات کہ یہ فیصلہ کوئی آخری فیصلہ نہیں ہے—‘
مجھے احساس ہوا ،تھاپڑ، پہلی بار، مجھ سے نگاہیں بچانے کی کوشش کررہا ہے—
’ تو یہ فیصلہ کہاں ہے تھاپڑ؟ سمجھو تہ ہے نا— آستھا کے نام پر ایک سمجھوتا کیاگیا۔ اگر یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوتا تو کیا سنگھ کے لوگ اسی طرح خاموشی اختیار کرلیتے؟ کیا وہ اس فیصلے کو منظور کرتے؟ کیا تب اس ملک کی شانتی بھنگ نہیں ہوتی؟‘
’ ہونہہ ۔‘ تھاپڑ نے گہری سانس کھینچی۔
’ یعنی تم بھی یہ تسلیم کرتے ہو کہ سنگھ خاموش نہیں رہتا۔ لیکن مسلمان خاموش رہ جائیںگے—کیونکہ مسلمان آزادی کے بعد کے ہر معاملے میں اب خاموش رہنا جان چکے ہیں۔ ‘
’ تمہاری آواز میں آزادی کے باسٹھ برسوں کی کڑواہٹ شامل ہے….‘
’ کیوں نہیں شامل ہونی چاہئے تھاپڑ؟ صرف اس لیے کہ ہر بار ہمیں اپنی ناکامیوں کے لیے بھی جشن کا انتظام کرنا پڑتا ہے— میں زور سے چلایا— میرا بیٹا غائب ہوا ہے۔ تمہاری اس جمہوریت میں ۔جہاں آستھاﺅں کے نام پر کسی بھی فیصلے پر ہماری مہر نہیں لگتی— میں صرف اس لیے اس آستھا بنام انصاف کی حمایت نہیں کرسکتا کہ دنگے نہیں ہوئے— فیصلہ دنگے بھڑکانے والوں کے نام ہوا ہے۔ ‘
’دنگے بھڑکانے والوں کے نام—؟ تھاپڑ چونک کر بولا—
’ تم کیا سمجھتے ہو۔ وہ کل تک ا س بات کا اعلان کررہے تھے کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں نہیں آیا تو پرانی کہانی دہرائی جاسکتی ہے۔ یعنی اس جمہوریت کے نام قربان ہوجانے کے لیے صرف ہم بچتے ہیں— جسے آزادی کے بعد سے کھلونا دے کر بہلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ لیکن کب تک بہلاﺅ گے—؟ہم چین سے اور سکون سے رہتے ہیں تو تم بٹلہ ہاﺅس لے کر آجاتے ہو۔ ‘
تھاپڑ نے مسکرانے کی کوشش کی—“
تھاپڑ اور ارشد پاشا کی اس گفتگو کے بعد تھاپڑ نے دوسرے دن ۲ بجے اسے خاص ملاقات کے لیے بلایا— اور کچھ دکھانے کی خواہش ظاہر کی— ارشد پاشا کو ایک گہری فکر میں مبتلا کر گیا کہ آخر وہ کیا دکھانا چاہتا ہے— اس سے پہلے تو تھاپڑ کا یہ رویہ کبھی نہیں دیکھاگیا— دوسرے دن ارشد پاشا وقت مقررہ پر اس جگہ پہنچ گیا— جوتھاپڑ نے بتائی تھی— تھوڑی دیر کے بعد ایک کار آتی ہے جس میں ایک لڑکی ہے— وہ ارشد پاشا کو اشارہ کرکے کار میں بلاتی ہے اورایک کالا چشمہ دیکر ہدایت کرتی ہے کہ جب تک کہا نہ جائے یہ چشمہ نا اتاریں— وہ ایک انجان راستے سے ہوتے ہوئے ایک بڑی بلڈنگ کے گیٹ کھلتے ہی اندر داخل ہوئے— چشمہ اتارتے ہی اس نے دیکھا کہ بندے ماترم سے درودیوار گونج رہے ہیں— ہر طرف بے شمار لوگ ایک مخصوص لباس میں گھوم رہے ہیں— ایک طرف سے تھاپڑ آتا ہوا دکھائی دیا اور کئی کمروں اور کمپیوٹر سینٹر دکھاتے ہوئے ایک کمرے میں لے گیا— جہاں کئی لوگ نماز پڑھ رہے تھے— اور ایک خوش الحان امام نماز مین قرآن کی آیت تلاوت کررہا تھا لیکن ارشد پاشا حیران تھا کہ یہ کونسی نماز کا وقت ہے— ساڑھے تین بجے— تھاپڑ نے کہا— چونکیے مت یہ مسلمان نہیں ہے— بلکہ ہمارے آدمی ہیں— ہم انہیں قرآن شریف کی تعلیم کے ساتھ نماز اور روزہ اور اردو زبان بھی سکھاتے ہیں— ارشد پاشا یہ سب کچھ دیکھ کر سکتے میں آگیا کہ جس کو میں اپنا سب سے بہترین دوست سمجھتا تھا وہ آر ایس ایس کا سب سے بڑا رکن نکلا— اس کی آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا— تھاپڑ نے کہا گھبرائیے مت آپ کو حفاظت سے پہنچا دیا جائے گا— اس ناول کا کلائمکس اتنا زوردار اور چونکا دینے والا ہے کہ پڑھنے والے پر بھی گویا ایک سکتہ طاری ہوجاتا ہے اور قاری کو دنیا کی ہر شے پرائی لگنے لگتی ہے— اوروہ اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگتا ہے کہ پتہ نہیں کب کوئی سایہ بھوت بن کر اسے اپنے شکنجے میں کس لے— یہاں اس ناول پر کچھ لکھنے سے بہتر ہوگا کہ میں تھاپڑ کی گفتگو پر مشتمل اقتباس پیش کروں جو کہ ناول کا خاص پہلو ہے— جب ارشد پاشا نے یہ منظر دیکھا تو اس پر لرزہ طاری ہوگیا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ تھاپڑ نے کہا —” میں سنگھ سے کالج کے زمانے سے جڑا ہوں اور میرا کام کرنے کا طریقہ جدا ہے— میں نے سنگھ کو جوائن کرنے کے بعد ہی اپنا فیصلہ سنادیا تھا کہ میں پہلے مسلمانوں کو سمجھنا چاہتا ہوں چاہے اس میں میری پوری زندگی صرف ہوجائے— لیکن سنگھ کے لیے میرے تجربے ہمیشہ کام آئیں گے اور مجھے تم سے زیادہ کوئی مسلمان مناسب نہیں لگا اس لیے میں نے تمہیںمنتخب کیا اور تمہارے ساتھ رہ کر تمہاری ہر کمزوری سے واقفیت حاصل کی— تھاپڑ نے کہنا شروع کیا۔
”’ایک بڑی جنگ— ایک عقیدے کو باریکی سے سمجھنے کے لیے ایک زندگی بھی کم ہوتی ہے— میں تمہاری مضبوطی اور تمہاری کمزور یوں کو سمجھنا چاہتاتھا۔ اور میں بہت حد تک سمجھ بھی گیا تھا۔ میرے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں کو جاننا ضروری تھا۔ تمہارا بادشاہ بابر جب پہلی بار ہندستان آیا تھا تو جانتے ہو اس نے اپنے فوجیوں سے کیا کہاتھا— یہ ہندوﺅں کا ملک ہے۔ ہندو سیدھے اور شریف ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھنا ہے تو قوت بازو سے نہیں۔ ان سے گھل مل کر انہیںسمجھنا شروع کرو— ہم تمہیں یعنی ایک عام مسلمان کو اتنا ہی جانتے تھے، جتنا باہر کی دنیا میں دیکھتے تھے، پھر تمہاری کمزوریوں سے ،تمہاری عام روٹین سے واقف کیسے ہوتے۔ اوران کے بغیر تم پر حکومت کیسے کرتے۔‘
تھاپڑ کی آواز سرد تھی۔’ ہم شانتی سے رہنے والے لوگ تھے۔ یہ ہماری زمین تھی— آریہ ورت۔ اور یہاں تم نے اپنے ناپاک پاﺅں پھیلادیئے ۔۰۰۷ برسوں کی غلامی ہمارے نام لکھ دی۔ ہم سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ یہ سوچ کر۔ کہ ایک دن…. ایک دن ہم تمہارے وجود سے اس زمین کو پاک کردیںگے۔ سمجھ رہے ہو نا تم…. اس کام میں وقت لگے گا۔ لیکن…. یہ کریںگے ہم۔ ہم بھارت کو ایک جمہوری مملکت کے بجائے ایک ہندو راشٹریہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی ہندو مملکت جہاں صرف ہماری حکومت ہو۔ اوراس لیے آزادی ملنے کے بعد سے ہی ہم نے سابق فوجی افسروں کو ملانا شروع کیا۔ چھوٹی موٹی کامیابیوں سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے۔ ناکامیوں سے ہم گھبراتے نہیں— کیوں کہ ہر ناکامی آگے آنے والی کامیابی کی دلیل ہوتی ہے— لیکن….‘
تھاپڑ کے چہرے کا رنگ بدلاتھا— تمہارے بیٹے نے سب گڑ بڑ کردیا۔ وہ اسی راستے پرچلا، جس راستہ پر ہم چلے تھے۔“
آخر میں، میں صرف اتنا کہوں گا کہ مشرف عالم ذوقی نے یہ عظیم ناول لکھ کر سارے مسلمانوں کی، اور ان کے مسائل، کی ان کے روز وشب کی عکاسی جس بیباک لہجے میں کی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے— جس طرح ڈاکٹر عزیز برنی نے آزاد بھارت کے اتہاس ، بے خوف ہوکر لکھا ہے،اسی طرح مشرف عالم ذوقی نے اپنے ناول میں کرداروں کے ذریعہ مسلم سماج کے ہر مسئلہ کو آئینہ بنا کر دکھایا ہے— ایسی بیباک تحریریں لکھنے والے مشرف عالم ذوقی کے اس ناول پر کوئی تھاپڑ پابندی نہ لگادے کہ اب سچ بولنا بھی اپنی جان کو مصیبت میں ڈالنے سے کم نہیں ہے— لیکن ایک بڑے حساس قلم کار کے لیے جھوٹ بولنا بھی اپنے ضمیر کا سودا کرنا ہے۔ مشرف عالم نے ایک بڑا سچ بولا ہے— ناول کے آخر میں ذوقی نے لکھا ہے کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ اب شروع ہوئی ہے— بے شک کہانی کی شروعات ہوچکی ہے— ظاہرہے کہ ہر آفس اور ہر طرف پھیلے ہوئے متعصب ذہنوں کا صفایا کرنا کسی ایک شخص یا مسلمانوں کے اختیار میں نہیں ہے— لیکن ایک ہستی ہے جو چن چن کر صفایا کرسکتی ہے اور وہ ہے خدائے برتر کی، جو خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
Add: Safi Liberary, Saronj (M.P) 464228
Mb: 09425641777