لکھنو۔(سید نظام علی)ریاست کی دارالسلطنت لکھنؤ کی پارلیمانی نشست پر دوبڑی سیاسی پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی ابھی تک اپنے امیدواروں کا اعلان نہیں کرسکی ہیں۔ داؤں پر لگی
اس نشست پر دونوں پارٹیاں چھ چھ مرتبہ قابض رہ چکی ہیں۔ ۱۹۶۲ء تک اس سیٹ پر کانگریسی امیدوار ہی کامیاب ہوتے رہے۔۱۹۶۷ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں شریک آنند نرائن ملانے کانگریسی امیدوارپدم شری وید رتن موہن کو شکست دے دی۔ ۱۹۷۱ء میں شیلاکول نے کانگریسی امیدوار کی حیثیت سے فتح حاصل کی۔ پھر ایمر جینسی کے بعد ہوئے انتخاب میں کانگریس سے نکالے گئے سابق وزیراعلیٰ ہیم وتی نندن بہوگنا نے ۱۹۷۷ء میں شیلا کول کو زبردست ووٹوں شکست دی۔ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۴ء تک شیلا کور پھر کامیاب ہوتی رہیں۔ ۱۹۸۹ء میں جنتا دل کے امیدوار مندھاتا سنگھ نے شیلا کول کو شکست دی۔ بابری مسجد تنازعہ نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ شہر کے رائے دہندگان نے بی جے پی کو جب اس شہری سیٹوں سے کامیابی سے ہمکنار کردیا۔ ۱۹۵۱ء سے ۲۰۰۴ء تک سابق وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی اس سیٹ سے کامیابی حاصل کرتے رہے۔ ۲۰۰۹ء کے انتخاب میں ریاست کے سابق وزیر لال جی ٹنڈن نے ریاستی کانگریس کے صدر ریتا بہوگنا جوشی کو ۴۰ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔ اس انتخاب میں لال جی ٹنڈن کو ۹۳۸،۰۳،۲ووٹ ملے۔ جبکہ ریتا بہو گنا جوشی کو ۰۸۶،۱۶۳سماجوادی پارٹی نفیس علی کو ۴۴۷،۶۱اور بہوجن سماج پارٹی کے اکھلیش داس کو ۵۷۱،۳۳ ووٹ ملے۔ ۲۰۰۹ء کے الیکشن میں سات مسلم امیدوار بھی میدان میں تھے۔ جس میں مسلم مجلس کے صدر خان محمد عاطف ، نوبھارت نرمان پارٹی کے محمد ارشاد ،انڈین جسٹس پارٹی کے مشتاق خان ،قومی آواز لکھنؤ کے ایڈیٹر حیات اللہ انصاری کی بہو شہناز سدرت آزاد امیدوار زبیر احمد اور احمد ہارون وغیرہ شامل تھے۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس مرتبہ انتخاب کانگریس اور بی جے پی دونوں کیلئے اہمیت کاحامل ہے۔ کانگریس اقتدار میں رہتے ہوئے بھی بے بس ہے تو بی جے پی اقتدار میں آنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔ لکھنؤ کی اس نشست کیلئے دونوںپارٹیوںمیں زبردست کشمکش جاری ہیں۔