امام (علیہ السلام) نے فرمایا: دنیا ایک بازار ہے، جہاں کچھ لوگوں نے نفع اٹھایا، یہ وہی لوگ ہیں جو “یَرْجُونَ تِجارَةً لَنْ تَبُورَ؛ ایسی تجارت سے امید باندھے ہوئے ہیں جو کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی”۔
آیت اللہ جوادی آملی آیات قرآنی کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں:
دنیا کو امام علی نقی الہادی (علیہ السلام) نے کچھ یوں متعارف کروایا ہے اور فرمایا ہے: “الدُّنْيَا سُوقٌ رِبِحَ فِيهَا قَوْمٌ وَخَسِرَ آخَرونَ؛ دنیا ایک بازار کی طرح ہے جس میں کچھ لوگ کماتے ہیں اور کچھ لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔۔۔”۔ منافع اٹھانے والے، کمائی اٹھانے والے وہی ہیں جنہوں نے راہ شہادت کو طے کیا اور حریت کی راہ کو منتخب کیا، [اسلام و قرآن کی خاطر] میں جانباز ہونے اور لاپتہ ہونے کا راستہ چنا۔ [خبردار] کہیں ایسا نہ ہو کہ شہداء، جانبازوں، جنگ کے اسیروں اور راہ حق میں جہاد کرتے ہوئے لاپتہ ہونے والوں کے گراں قدر گھرانے کہہ دیں کہ ہمیں کیا ملا! ایسا نہ ہو کہ اس عظیم نعمت سے محرم ہوجائیں۔
امام (علیہ السلام) نے فرمایا: دنیا ایک بازار ہے، جہاں کچھ لوگوں نے نفع اٹھایا، یہ وہی لوگ ہیں جو “یَرْجُونَ تِجارَةً لَنْ تَبُورَ؛ ایسی تجارت سے امید باندھے ہوئے ہیں جو کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی”۔ (سورہ فاطر، آیت 29) کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں سورہ صف میں وعدہ دیا گیا ہے کہ “هَلْ أَدُلُّکُمْ عَلی تِجارَةٍ تُنْجیکُمْ مِنْ عَذابٍ أَلیمٍ؛ کیا میں تمہیں ایسی تجارت کی راہ دکھاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے چھڑا دیتی ہے؟”۔ (سورہ صف، آیت 10) اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اس بازار میں نقصان اٹھایا ہے۔ وہی لوگ جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا: [أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرُوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى] فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ [وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ]؛ [یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی] تو ان کی تجارت نے انہیں کوئی نفع نہيں پہنچایا [اور نہ ہی وہ انہیں ہدایت نصیب ہوئی]”۔ (سورہ بقرہ، آیت 16)۔ امام ہادی (علیہ السلام) نے فرمایا: دنیا ایک بازار ہے، انسان اپنی زندگی بیچ رہا ہے اور سامان تجارت خرید رہا ہے، دیکھنا چاہئے کہ [اپنی زندگی کے بدلے] کیا لے رہا ہے؛ [خیال رہے کہ] ایسی چیز نہ خریدے جسے یہاں چھوڑ کر جانا ہے؛ ایسی چیز خرید لے جسے وہ اپنے ساتھ لے کر جاسکے۔