بالی ووڈ میں ایسی متعدد فلمیں بنائی جا چکی ہیں جس کی کہانی ایک طوائف کے ارد گرد گھومتی ہے۔ ایسی بیشتر کامیاب فلموں کی یہ طوائفیں غم سے دو چار نظر آتی ہیں اور سماج ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ لیکن، ان کی شوخیوں، قاتل اداؤں اور شاعرانہ کلام کے دیوانے بھی ہزاروں نظر آتے ہیں۔
مینا کماری کی فلم ’پاکیزہ ‘ اور ریکھا کی فلم ’امراؤ جان‘ کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے۔ ان دونوں فلموں میں ایسی طوائفوں کی منظر کشی کی گئی ہے جو شاعری میں ماہر تھیں اور اپنی شوخ اداؤں کی مستیاں بکھیرتی تھیں۔
یہ طوائفیں ان شمعوں کی مثال پیش کرتی ہیں جو خود کو جلا کر اس ناشکرے زمانے میں روشنی بکھیرتی ہیں۔ کوٹھے کی روایت کو نمایاں کرنے والی ان فلموں کو کامیاب بنانے میں بہترین شاعری اور موسیقی کا بھی اہم کردار ہے۔
طوائف کے مرکزی کردار والی 5 فلموں پر نظر ڈالتے ہیں:
پاکیزہ (1972): مینا کماری کے طوائف ’صاحب جان‘ کے کردار اور اس کی مسحور کر دینے والی اداکاری کے علاوہ اس فلم کو کامیاب بنانے میں بہت حد تک غلام محمد کا بھی ہاتھ ہے، جنہوں نے اس فلم کو شاندار موسیقی سے سجایا۔ اس فلم کے لئے لتا منگیشکر کی گلوکاری والے نغمے اور مجرے ہر طوائف کی زندگی کی کہانی بیان کرتے ہیں: چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا، تیرِ نظر دیکھیں گے، ٹھہرے رہیو، ہو بانکے یار رے، انہی لوگوں نے لے لینا دوپٹہ میرا… ان میں سے کون سا نغمہ سب سے بہترین ہے یہ انتخاب کرنا ممکن نہیں اور ان نغموں کے لیے اس فلم کو لاکھوں مرتبہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس فلم میں مینا کماری نے جس بے مثال اداکاری کے جوہر دکھائے اس کا انحصار موسیقی پر بھی تھا۔ فلم کی شوٹنگ کے ایک بڑے حصے کے دوران مینا کماری کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ رقص کرنا تو دور ہل بھی نہیں پاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجرا ’چلتے چلتے‘ کی منظر کشی معاون رقاصاؤں کے ساتھ کی گئی، جبکہ ’تیرِ نظر دیکھیں گے‘ کو ایک متبادل رقاصہ، پدما کھنہ نے پیش کیا تھا۔
امراؤ جان (1981): پاکیزہ کی ہی طرح امراؤ جان کی داستان کو بھی خیام کی موسیقی اور شہریار کی شاعری کے علاوہ آشا بھونسلے کی عمدہ انداز والی گلوکاری نے جلا بخشی۔ ہدایت کار مظفر علی سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ نے اس فلم کے لیے لتا جی کے بجائے آشا بھونسلے کا انتخاب کیوں کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ موسیقار خیام کا فیصلہ تھا، چونکہ اگر اس فلم کے لیے لتا جی گلوکاری کرتیں تو پھر یہ فلم پاکیزہ دوم بن کر رہ جاتی! اور پھر میڈم بھونسلے نے ان خوبصورت مجروں میں جان ڈال دی: دل چیز کیا ہے آپ میری میری جان لیجئے، ان آنکھوں کی مستی کے مستانیں ہزاروں ہیں، یہ کیا جگہ ہے دوستو، اور سب سے شاندار جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے، اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے۔
سادھنا (1958): سادھنا میں طوائف کے کردار میں وجنتی مالا نے جس عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کیا وہ بھی پا کیزہ میں مینا کماری اور امراؤ جان میں ریکھا کی اداکاری سے کسی طرح کم نہیں تھی۔ بی آر چوپڑا کے اس اصلاح پسند ڈرامہ میں وجنتی مالا نے کثیر جہتی اداکاری پیش کی۔ سادھنا جیسے کردار اداکاراؤں کو شاذ و نادر ہی حاصل ہو پاتے ہیں اور وجنتی مالا نے اس فلم میں جان ڈال دی۔ اس فلم نے ان کی ورسٹائل شخصیت کے کئی رنگوں کو نمایاں کرنے کا موقع فراہم کیا۔ وجنتی مالا ایک رقاصہ یا واضح طور پر کہیں تو ایک طوائف کا کردار سادھنا سے تین سال قبل بمل رائے کے ’دیوداس‘ میں چندرمکھی کے طور پر ادا کر چکی تھیں۔ دیوداس میں چندر مکھی کا کردار ادا کرنا قدرے آسان تھا۔ اس میں انہوں نے ایک ایسی رحم دل رقاضہ کا کردار ادا کیا جو دوسرے کی خوشی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر سکتی ہے۔
سادھنا میں وجنتی مالا ایک ایسی ڈانسر کا کردار ادا کرتی ہیں جو پیسے کے لیے ایک مالدار گھر کی فرضی بہو بننا قبول کر لیتی ہے جس کی مالکن سخت بیمار ہے اور مرنے سے پہلے اپنی بہو کو دیکھنا چاہتی ہے۔ رقص کے ذریعے اپنی ادائیں دکھانے والی اور سماج کے مرکزی دھارے میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والی چمپابائی اس کے بعد اپنے کردار کو اعتماد کے ساتھ آگے بڑھتاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہونے والے تعصب کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔ سادھنا کے برسوں بعد ایل وی پرساد فلم ’کھلونا‘ بناتے ہیں جس میں طوائف ممتاز کو نفسیاتی طور پر صدمے میں مبتلا شخص سنجیو کمار کی بیوی کا کردار ادا کرنے کے لئے ایک اثر و رسوخ والے گھرانے میں لایا جاتا ہے۔ نفسیاتی طور پر صحتیاب ہونے کے بعد ممتاز کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے لیکن پھر سنجیو کمار ایک طوائف کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہیں۔
شرافت (1970): ہیما مالینی نے اپنے کیریئر کے آغاز میں ایک ایسی زوال پذیر خاتون کا کردار ادا کیا جس کو ایک بااصول کالج پروفیسر دھرمیندر بچا لیتے ہیں اور اس وقت تک آسرا دیتے ہیں جب تک وہ اپنی پرانی زندگی میں یہ یقین کرنے کے لئے لوٹ جاتی ہے کہ انہیں معاشرہ میں کبھی قبولیت نہیں مل سکتی۔ فلم کے آخر میں ہونے والا مجرا ’شریفوں کے زمانے میں اجی بس حال وہ دیکھا کہ شرافت چھوڑ دی میں نے‘ اس عورت کے دل کا حال بیان کرتا ہے جو اپنی بدنام زندگی کو چھوڑنے کی خواہاں ہے مگر زمانہ اسے اس کی اجازت نہیں دیتا۔
دیوداس (2002): دیوداس میں مادھوری دکشت کے طوائف کے کردار میں جان ڈالنے کا کام پنڈت برجو مہاراج اور بالی ووڈ کی مایہ ناز کوریوگرافر سروج خان نے کیا، جنہوں نے کتھک کا استعمال کرتے ہوئے اس فلم کے لیے مثالی کوریوگرافی انجام دی۔ تحریر اور کوریوگرافی کے معاملہ میں مینا کماری کی فلم پاکیزہ میں ادا کیے گیے کردار کے بعد ممکنہ طور پر سب سے بہترین کردار تھا۔ مادھوری نے اس کے بعد کرن جوہر کی ’کلنک‘ میں بھی طوائف کا کردار ادا کیا مگر اس فلم کو کامیابی نہیں مل سکی۔ سنجے لیلا بھنسالی ایک اور طوائف کے کردار والی فلم ’ہیرا منڈی‘ کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس میں ریکھا، تبو اور کرینہ کپور سے لے کر عالیہ بھٹ تک کوٹھے پر نظر آ سکتی ہیں۔ کورونا وائرس کے اس دور میں یہ منصوبہ کامیاب بھی ہو سکے گا یا نہیں، یہ تو خدا ہی جانے۔