اگر سعودی عرب کے شہزادوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو شاید آج کل کے محمد بن سلمان سے زیادہ اکیلا کوئي شہزادہ نہیں ملے گا۔ بن سلمان، جو قانونی ولی عہد محمد بن نائف کو کنارے لگا کر، بیعت کونسل کو ٹھینگا دکھا کر اور آل سعود خاندان کی تمام روایات کو توڑ کر ولی عہد بن گئے تھے، آج شاید سب سے الگ تھلگ اور اکیلے پڑ چکے سعودی شہزادے ہیں، البتہ ان کے قریبی افراد انھیں سائبر اسپیس کی رپورٹوں کے ذریعے مستقبل کی طرف سے پرامید بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تین سال تک ان کی غاصبانہ ولی عہدی کے بعد ایک بار پھر لوگوں کی زبانوں پر محمد بن نائف کا نام گشت کرنے لگا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انھیں نظر بندی سے باہر نکالنے اور سیاست میں دوبارہ لوٹانے کے لیے امریکہ نے کوشش شروع کر دی ہے۔
دوسری جانب یمنی فورسز کے میزائیل اور ڈرون، ایسے خطرے میں بدل میں چکے ہیں جو بن سلمان کے بیڈ روم تک کو ہلا رہے ہیں۔ اگر مآرب کو نظر انداز بھی کر دیا جائے، جو عنقریب ہی پوری طرح یمنیوں کے ہاتھ میں آنے والا ہے اور اس پر سے سعودی اور ہادی کا قبضہ ختم ہونے والا ہے، تب بھی بن سلمان کے کل کے جگری دوست یعنی بن زائد ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور یمن سے ان کے ذلت آمیز انخلاء کے منتظر ہیں۔ اگرچہ بائيڈن نے خاشقجی قتل کیس میں ان کے خلاف کارروائي نہ کرنے کا اشارہ دے دیا ہے لیکن دوسرے لوگ انھیں نہیں چھوڑیں گے؛ اتوار کے روز ایلہان عمر کا بیان اسی بات کو عیاں کرتا ہے۔
ادھر سعودی عرب کا قریبی اتحادی مصر، ترکی سے پینگیں بڑھا رہا ہے جبکہ اب نہ تو عرب نیٹو کا نام سنائي دیتا ہے اور نہ ہی عرب-اسرائیل اتحاد کی کوئي بات ہوتی ہے۔ شاید بن سلمان کی زندگي کا سب سے سخت لمحہ آج اس وقت سامنے آيا جب انھوں نے منصور ہادی حکومت کے وزیر خارجہ کے قطر والوں کی دست بوسی اور رحم کی بھیک مانگنے کے لیے دوحہ روانہ کیا؛ یہ وہی قطر ہے جسے بن سلمان، پانی میں ڈبا دینا چاہتے تھے۔