ینگون: میانمار میں مظاہرین پر فورسز کی فائرنگ سے مزید 18 افراد ہلاک ہوگئے۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جب سے ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرے اور احتجاج شروع ہوئے ہیں گزشتہ روز اتوار کو سامنے آنے والی ہلاکتیں اب تک کی ایک دن میں ہونے والی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق معزول کیے جانے والے اراکین پارلیمنٹ کے حمایت یافتہ گروپس نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ ‘اس تاریک مرحلے’ میں ‘اپنا دفاع خود’ کریں۔
دوسری جانب امدادی انجمن برائے سیاسی قیدیوں، جو وکلا کا ایک گروپ ہے، نے بتایا کہ اب تک ہونے والی ہلاکتیں 38 تک پہنچ چکی ہیں جس میں سے 22 صرف ینگون کے ضلع ہلاینگتاریار میں ہوئیں، یہ تعداد 3 مارچ کو ہونے والی ہلاکتوں کے برابر ہیں، جس روز سب سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے ملک میں منتخب سیاسی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور دیگر سیاستدانوں سمیت آنگ سان سوکی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔
فوج کے اس عمل کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو تا حال جاری ہے، جس میں اب تک فورسز کی جانب سے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا، جس کے باعث متعدد مظاہرین ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔
منتخب اراکین پارلیمنٹ کے گروپ، جو روپوش ہیں، کی جانب سے ایک خفیہ پارلیمنٹ قائم کی گئی ہے جسے انہوں نے کمیٹی برائے پیئیڈونگسو ہلوٹو (چی آر پی ایچ) کا نام دیا ہے، جس کا مقصد فوجی حکومت کی مذمت کرنا ہے۔
انہوں نے ایک جاری بیان میں کہا کہ ملک کے قوانین کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے خلاف مظاہرین کو پورا حق ہے کہ وہ اپنا دفاع کریں، جو تشدد اور نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سپاہیوں اور پولیس اہلکاروں کی جانب سے حالیہ کچھ ہفتوں کے دوران مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے، جو جمہوریت کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں، فورسز کی جانب سے ان کے خلاف آنسوں گیس، ربڑ کی گولیاں اور لائیو گولیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
ادھر ینگون میں ہیلنگ تھراری کے علاقے میں پولیس اور سپاہیوں نے مظاہرین کے خلاف ڈنڈے اور چھریوں کا استعمال کیا جو عارضی طور پر رکاوٹوں کے پیچھے چھپ جاتے تھے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے ان پر فائرنگ بھی کی، جس کے بعد وہ فرار ہوگئے۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ‘میں تصدیق کرتی ہوں کہ 15 افراد ہلاک ہوئے ہیں’، انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ انہوں نے 50 زخمیوں کو طبی امداد بھی فراہم کی ہیں۔
امدادی انجمن برائے سیاسی قیدیوں کے گروپ، جو فوجی بغاوت کے بعد سے ہونے والی گرفتاریوں کی تفصیلات سے آگاہ کررہا ہے، نے سب سے زیادہ ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب سرکاری میڈیا کے مطابق فورسز کی جانب سے ینگون کے دو علاقوں میں مارشل لا نافذ کردیا گیا ہے۔
ہلہنگ تھراری اور پڑوسی سویپیٹھا کے علاقوں میں مارشل لا کا اعلان اس وقت سامنے آیا جب وہاں کریک ڈاؤن کے دوران سیکیورٹی فروسز نے احتجاج کرنے والے 15 مظاہرین کو ہلاک کردیا تھا۔