فلسطینی عوام کے حق میں مواد کو روکے جانے کے الزامات کے بعد فیس بک کی زیرملکیت ایپ انسٹاگرام نے اپنے الگورتھم میں تبدیلیاں کی ہیں۔
یہ تبدیلیاں اس قت کی گئی جب انسٹاگرام میں کام کرنے والے افراد کے ایک گروپ نے شکایت کی تھی فلسطینیوں کے حق میں مواد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران صارفین دیکھ نہیں سکے تھے۔
فنانشنل ٹائمز کی رپورٹ کے مطاب انسٹاگرام کے ملازمین کے گروپ کی جانب سے فلسطین کے حق میں مواد کو سنسر سے روکے جانے کے حوالے سے متعدد اپیلیں کی گئی تھیں۔
ملازمین کا یہ تو ماننا نہیں کہ ان پوسٹس کو دانستہ طور پر سنسر کیا گیا مگر ان کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر پوسٹس کو روکنا ایک مظلوم گروپ تعصب برتنا ہے۔
فیس بک کے ایک ترجمان نے بتایا کہ انسٹاگرام الگورتھم میں تبدیلیاں صرف فلسطینی مواد کے حوالے سے نہیں بلکہ کمپنی کو احساس ہوا کہ یہ ایپ جس طرح کام کرتی ہے، وہ ایسی پوسٹس کو پروموٹ کرتی ہے جو اس کے خیال میں صارفین کو زیادہ پسند ہیں، جس کے نتیجے میں لوگوں کو لگتا ہے کہ مخصوص نکات یا نقطہ نظر یا موضوعات کو دبایا جارہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں ایسا نہیں، اس کا اطلاق ہر اس پوسٹ پر ہوتا ہے جو اسٹوریز میں ری شیئر کی جاتی ہے، چاہے وہ جو بھی ہو۔
مگر اب نئی تبدیلیوں کے بعد اوریجنل مواد کے ساتھ اسٹوریز میں ری شیئر کیے جانے والی پوسٹس کو یکساں اہمیت دی جائے گی۔
ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر حالیہ ہفتوں میں شدید تنقید کرتے ہوئے صارفین نے کہا تھا کہ غزہ کے حوالے سے مواد کو سنسر کیا جارہا ہے۔
مئی کے شروع میں ٹوئٹر نے ایک فلسطینی مصنف کا اکاؤنٹ لاک کردیا تھا اور بعد میں کہا تھا کہ ایسا ‘غلطی’ سے ہوا جبکہ انسٹاگرام میں 6 مئی کو کئی گھنٹوں تک فلسطین سے متعلق پوسٹس نہین ہوسکیں، جسے کمپنی کے سربراہ نے ‘ٹیکنیکل بگ’ کا نتیجہ قرار دیا۔
ترجمان کے مطابق صارفین کی جانب سے مسلسل کہا گیا ہے کہ وہ اپنے قریبی دوستوں کی اوریجنل اسٹوریز میں ری شیئر ہونے والی فوٹوز اور پوسٹس سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، اسی وجہ سے اوریجنل اسٹوریج کو ترجیح دی گئی۔
ترجمان کے مطابق مگر اب متعدد افراد کی جانب سے پوسٹس ری شیئر کی جارہی ہیں اور ہم نے ان پوسٹس کی ریچ کے حوالے سے توقع سے زیادہ بڑا اثر دیکھا ہے۔