غزہ کی جنگ سے دو مہینے پہلے اسرائیل کے لئے حالات بہت اچھے ہوگئے تھے۔ امریکا کی نئی حکومت انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنانے میں دلچسپی لے رہی تھی، ابراہم امن معاہدہ بھی صحیح سمت آگے بڑھ رہا تھا اور مشرق وسطی میں نئے زمانے کے آغاز کی علامتیں ظاہر ہونے لگی تھیں۔
اسرائیل میں کورونا وائرس کی ویکسینیشن پوری کر لی گئی تھی۔
جیروزلم پوسٹ اخبار نے ستھ فرانٹس مین کا ایک مقالہ شائع کیا جس میں مقالہ نگار کا کہنا ہے کہ حالیہ غزہ جنگ کے بعد حماس کی مقبولیت میں زیادہ اضافہ ہوا ہو۔ یہاں تک کہ حماس کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے الاقصی میں فلسطینی انتظامیہ کے مفتی کو نکال دیا گیا۔
دوسری جانب پوری دنیا میں اسرائیل کی مذمت میں مقالے شائع کئے گئے۔
مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ چین نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف مہم چلائی یہاں تک کہ امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی میں دائیں بازوں کے رہنماؤں نے اسرائیل پر الزامات عائد کئے کہ وہ نسل پرستی کی حرکتیں کر رہا ہے اس لئے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روک دینی چاہئے۔
مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ اب تو امریکا کے اندر عیسائیوں میں بھی اسرائیل کی حمایت بہت کم ہو گئی ہے جبکہ حماس کی مقبولیت بہت زیادہ ہوگئی ہے جس کی ماضی میں مثال نہيں ملتی۔
اب تو حالات یہ ہیں کہ اسرائیلی شہروں پر چار ہزار میزائل فائر کرنے پر حماس کی مذمت نہیں کی جا رہی ہے۔ کچھ ممالک نے یہ غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ حماس کے بارے میں انہيں اپنی پرانی پالیسی تبدیل کرنی ہوگی۔
در ایں اثنا حزب اللہ اور ایران کی طاقت میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ سی این این پر کھل کر اسرائیل کی مخالفت کرتے نظر آئے۔ ترکی بھی اسرائیل کو سزا دیئے جانے اور الگ تھلگ کرنے کی ایران کی مہم میں شامل ہو گیا، غرب اردن میں فلسطینیوں نے حماس کی فتح کا جشن منایا۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسرائیل کو دہشت گرد حکومت کہا، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، حزب اللہ اور حماس نے بھی اسرائیل کو سخت انتباہ دیا ہے۔ اب حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔
اسرائیل نے دس مئی کو حملہ کرنے کی تیاری کی تو اس وقت تک حماس نے ہزاروں میزائل عسقلان، اسدود اور تل ابیب پر فائر کرنے کے لئے تیار کر لئے تھے۔
ایران اور حزب اللہ نے اسرائیل کی دفاعی طاقت آزمانے کا ارادہ کیا اور اسرائیل غزہ کے جال میں پھنس گیا۔