تہران، 22 جون ؛ ایران کے نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی اگست میں اپنا عہدہ سبنبھالیں گے لیکن ان کی راہ آسان نہیں ہے، جہاں ان کے راستے میں جوہری توانائی معاہدے ہیں، وہیں اقتصادی پابندی کی وجہ سے ایرانی معیشت کو پٹری پر لانا اور امریکہ سمیت یوروپی یونین کے ساتھ تعلقات کو بحال کرنا شامل ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ایران کے نئے منتخب صدر ابراہیم رئیسی کو آنے والے عرصے میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان میں نمایاں ترین چیلنج بوجھ سے لدی اقتصادی صورت حال ہے۔ اس مسئلے کے علاج کے لیے اس وقت کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ حالانکہ نو منتخب صدر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ایرانی معیشت بہتر بنائیں گے اور ایرانی گھرانوں کی معاشی سطح بلند کریں گے۔ اس مقصد کے لیے جن امور پر توجہ مرکوز کی جائے گی ان میں ملک کے مقامی وسائل، حلیف ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات اور صنعتی پیداوار میں مضبوطی شامل ہے۔
ابراہیم رئیسی کو جو چیلنج درپیش ہوں گے وہ امریکی پابندیاں ہیں جو ابھی تک جاری و ساری ہیں اور ایران کے بینک عالمی معیشت کے ایک بڑے حصے سے منقطع ہیں۔ اس کی وجہ ایران کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزیاں ہیں۔
العربیہ نے انگریزی ویب سائٹ ’بلومبرگ‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ تہران اور اس کی مرکزی اقتصادی مشکلات کے تین محور ہیں جو درج ذیل ہیں:
مئی 2018ء میں سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے جوہری معاہدے سے علاحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد سے ڈالر کے مقابلے میں ایرانی کرنسی کی قدر میں 80% تک کمی آ چکی ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کی جانب سے پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے بعد ایران کی معیشت انتہائی طور پر سکڑ گئی۔ اس کے نتیجے میں ایرانی ریال کی قیمت میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔
سابق صدر حسن روحانی کی حکومت نے مستحکم نرخ کا استعمال کرتے ہوئے مالیاتی مارکیٹس پر کنٹرول کی کوشش کی مگر اس پالیسی کے برعکس نتائج برآمد ہوئے اور بحران مزید سنگین ہو گیا۔ اسی طرح افراط زر میں بڑے پیمانے پر اضافے اور انتہائی کمزور کرنسی کے ساتھ قوت خرچ میں واضح کمی آئی جس سے آمدنی کو بھی ضرر پہنچا۔
امریکہ نے عملی طور پر ایران کے خام تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر دی۔ واشنگٹن نے دیگر ممالک کو دھمکی تھی کہ اگر انہوں نے تہران سے توانائی خریدی تو ان ممالک کو بھی پابندیوں کا سامنا ہو گا۔ تیل کی آمدنی اور پیداوار میں کمی اور غیر ملکی کرنسی کی قلت کے نتیجے میں ایران کی معیشت کی نمو کو نقصان پہنچا۔سال 2017ء سے ایران کی یورپی یونین کے ساتھ تجارت میں 85% کمی آ چکی ہے۔ امریکی پابندیوں کے دوبارہ عائد کیے جانے سے قبل یورپی یونین تہران کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے تھی۔
اس کے علاوہ پابندیوں کے دوبارہ عائد کیے جانے کے سبب 2020ء کی آخری سہ ماہی تک یورپی یونین سے ایران کی درآمدات میں 80
% تک کمی آ گئی۔
بلومبرگ کے مطابق ایران میں سخت گیر عناصر یورپ کے بجائے چین اور روس کے ساتھ زیادہ مضبوط تعلقات پر زور دیتے ہیں۔مبصرین کی بڑی تعداد یہ توقع رکھتے ہیں کہ نئے ایرانی صدر مغرب کے ساتھ اپنی سخت گیر پالیسی کے سبب ملک کی معیشت میں پھر سے جان ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔