جان کیری نے کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ’بشارالاسد کے حکومت کی لاقانونیت انتہا تک پہنچ گئی۔‘
امریکہ نے واشنگٹن میں شام کے سفارت خانے اور مشی گن اور ہیوسٹن ٹیکساس میں شامی قونصلیٹ بند کرتے ہوئے شامی سفارتی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ ہفتے شامی سفارت خانے کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ مزید خدمات نہیں دے گی جس کے بعد منگل کوامریکہ کی طرف سے یہ اقدام اٹھایا گیا۔
اسی بارے میں
شام: سلامتی کونسل کا امداد تک رسائی کے لیے قرارداد
شام: ضرورت مند بچوں کی تعداد 55 لاکھ ہوگئی
شام: باغیوں نے اپنا نیا کمانڈر مقرر کر لیا
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ’بشارالاسد کی حکومت کی لاقانونیت انتہا تک پہنچ گئی۔‘
انھوں نے محکمۂ خارجہ میں ایک تقریب کے دوران طلبا سے اپنے خطاب میں کہا کہ بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے گذشتہ تین سال سے جاری جنگ کے دوران 140000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اسد کی حکومت ’بغیر کسی امتیاز کے عام شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔‘
جان کیری نے کہا کہ’ہمیں محسوس ہوا کہ یہاں ایسی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سفارت خانے کی موجودگی ہماری لیے بے عزتی ہے، بس ہم نے اسے بند کر دیا۔‘
“ہمیں محسوس ہوا کہ یہاں ایسی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سفارت خانے کی موجودگی ہماری لیے بے عزتی ہے، بس ہم نے اسے بند کر دیا۔”
جاان کیری
امریکہ سے شامی سفیر دسمبر سنہ 2011 میں چلے گئے تھے اور امریکی دارالحکومت میں شام کا سفارت خانہ کچھ عرصے سے بغیر سفیر کے کام کر رہا تھا جہاں پر معمولی تعداد میں عملہ خدمات دے رہا تھا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق شام کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے ڈینئل ریوبنسٹین نے کہا کہ ہمیں شامی حکومت کی طرف سے تعینات نمائندے کا امریکہ میں سفارت کاری کرنا ’ناقابلِ قبول‘ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاہم ڈینئل ریوبنسٹین نے اس بات پر اصرار کیا کہ’اختلافات کے باوجود شامی عوام کے ساتھ تاریخی تعلقات کی خاطر امریکہ شام کی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم نہیں کر رہا اور یہ تعلقات بشارالاسد کے جانے کے بعد مزید بہتر ہونگے۔‘
شام کے سفارت خانے کی ویب سائٹ پر پیغام دیا گیا تھا کہ’منگل سے شام کا سفارت خانہ کونسل کی خدمات نہیں دے سکی گی۔سمجھنے کا شکریہ۔‘
شام میں مارچ 2011 میں حکومت مخالف بغاوت کے آغاز کے بعد سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں
واشنگٹن نے یہ بھی کہا ہے کہ شام کے وہ سفارت کار جو امریکی شہری نہیں ہیں انھیں امریکہ میں کام کرنے کی مزید اجازت نہیں اور ان کے لیے 31 مارچ تک ملک چھوڑنا ضروری ہے۔
محکمۂ خارجہ کی خاتون ترجمان نے کہا کہ اس سے معمولی تعداد میں سفارتی عملہ اور ان کا خاندان متاثر ہوگا۔ تاہم انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے لیے شام کے سفارتی مشن کو کام کرنے کی اجازت ہوگی۔
گذشتہ مہینے امریکہ نے اقوام متحدہ کے لیے شامی سفیر بشار جعفر کی نقل و حرکت کو نیویارک کے اردگرد 25 کلو میٹر تک محدود کیا تھا۔
شامی نژاد امریکیوں کی ایک گروپ جمہوری شام کے لیے اتحاد نے جعفر پر امریکہ میں عوامی مقامات پر اپنی تقاریر میں شامیوں کے درمیان فرقہ واریت کو ہوا دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
شام میں مارچ 2011 میں حکومت مخالف بغاوت کے آغاز کے بعد سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 95 لاکھ افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔