بولی وڈ اداکارہ عالیہ بھٹ کے عروسی ملبوسات کے برانڈ کے اشتہار پر بڑے پیمانے پر تنقید کے بعد بھارتی اسکینڈل کوئین کنگنا رناوٹ نے بھی اس پر ردعمل دیا ہے۔
چند روز قبل ’موہے فیشن‘ نامی برانڈ کے اشتہار میں عالیہ بھٹ کو عروسی لباس میں دیکھا گیا تھا تاہم اس اشتہار میں دیے گئے پیغام پر انہیں اور برانڈ کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔
اشتہار میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاندان کا ہر فرد دلہن بنی عالیہ بھٹ سے محبت کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے جس کے جواب میں پہلے وہ اپنی دادی کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’دادی بچپن سے کہتی ہیں کہ جب تو اپنے گھر چلی جائے گی تو بہت یاد کروں گی‘ پھر وہ (عالیہ بھٹ) سوال کرتی ہیں ‘کیا یہ گھر میرا نہیں ہے؟‘
اس کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ سیلفیز بنواتی ہیں اور پھر بتاتی ہیں کہ ’سب کہتے تھے پرایا دھن ہے اتنا مت بگاڑو، انہوں (والد) نے سنا نہیں پر یہ بھی نہیں کہا کہ نہ میں پرائی ہوں نہ دھن’۔
اشتہار میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ پھر اپنی والدہ کے ساتھ اشاروں میں بات چیت کرتی ہیں اور کہتی ہیں ’ماں مجھے چڑیا بلاتی ہیں، کہتی ہیں اب تیرا دانہ پانی کہیں اور ہے پر چڑیا کا تو پورا آسمان ہوتا ہے نا’۔
پھر عالیہ بھٹ افسردہ انداز میں کہتی ہیں کہ ’الگ ہوجانا، پرایا ہوجانا، کسی اور کے ہاتھ سونپا جانا، میں کوئی دان کرنے کی چیز ہوں؟ کیوں صرف کنیا دان؟‘
جس کے بعد دلہن کی افسردگی اس وقت خوشی میں بدل جاتی ہے جب دلہے کے والدین اپنے بیٹے کا ہاتھ بھی آگے بڑھا دیتے ہیں جس پر عالیہ بھٹ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں ‘نیا آئیڈیا، کنیا مان’۔
مذکورہ اشتہار کو ’جدید دور کی دلہن‘ اور ’نئے دور کے خیالات‘ کا مظہر قرار دیا گیا ہے۔
تاہم اس اشتہار میں ہندو مذہب میں شادی کی رسم کنیادان کا نام تبدیل کرنے پر اسے شدید تنقید کا سامنا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس اشتہار سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے۔
کنگنا رناوٹ نے انسٹاگرام پر شیئر کی گئی پوسٹ میں یہ اشتہار بنانے والے برانڈ پر تنقید کی۔
کنگنا رناوٹ نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ‘تمام برانڈز سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اپنی چیزیں بیچنے کے لیے مذہب، اقلیت اور اکثریت کی سیاست کا استعمال نہ کریں’۔
اپنی پوسٹ میں کنگنا رناوٹ نے لوگوں سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ ہندو رسومات کا مذاق اڑانا بند کریں۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم اکثر ایک شہید کے والد کو ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں، جب وہ سرحد پر ایک بیٹا کھو دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں فکر مت کرو، میرا ایک اور بیٹا ہے، اس کا بھی دان میں اس دھرتی ماں کو دوں گا’۔
کنگنا رناوٹ کا کہنا تھا کہ ‘کنیادان ہو یا پتردان، جس طرح معاشرہ کسی چیز کو ترک کرنے کے تصور کو دیکھتا ہے وہ اس کی بنیادی اقدار کے نظام کو ظاہر کرتا ہے’۔