۴۲ مارچ سے شروع ہوگی وقف بچاﺅ تحریک ،رائے بریلی ،امیٹھی ،مرادآباد میرٹھ ہوتے ہوئے جائیں گے دہلی ،ہندوستان بھر میں ہونگے مظاہرے
لکھنو¿ ۹۱ مارچ: ”وقف بچاﺅ تحریک “ کے بینر پر مسلسل دہلی اور اترپردیش کے علاوہ ہندوستان بھر میں اوقاف کی بازیابی کے لئے مہم چلائی جارہی ہے ۔یوپی پریس کلب میں آج سہ پہر اوقاف کے معاملات کو لیکر مولانا کلب جواد نقوی کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ اس موقع پر مولانا سید کلب جواد نقوی نے صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اوقاف کی بازیابی کی تحریک ہم مسلسل ۲۱ تیرہ سال کے عرصہ سے چلارہے ہیں ۔
اس تحریک میں ہمیں کامیابی بھی ملی ہے ۔وہ اوقاف جو مافیاﺅں کے قبضے میں تھے ہم نے خالی کرائے مگر جن اوقاف پر حکومت کے قبضے ہیں وہ ابھی تک خالی نہیں ہوسکے ۔حکومت کے اوقاف کی زمینوں پر پورے ہندوستان میں قبضے ہیں ۔یوپی ،بہار ،بنگال اور دوسری ریاستوں میں بھی اوقاف کی زمینیں ابھی تک سرکار کے قبضوں سے واگزار نہیں کرائی جاسکی ہیں ۔اب ہماری تحریک ہندوستان بھر کے اوقاف کی بازیابی کے لئے ہے جن پر سرکار کے قبضے ہیں ۔مولانا نے کانگریس کے ذریعہ ۳۲۱ اوقاف کے کلیم واپس کئے جانے کے معاملے پر بولتے ہوئے کہا کہ ”ابھی کانگریس نے ۳۲۱ اوقاف کی زمینوں کے کلیم واپس کئے ہیں مگر حکومت کے ساتھ اسکے ہم زبان اور زر خرید مسلمان رہنماﺅں نے بھی یہ شور مچادیا کہ حکومت نے ۳۲۱ اوقاف کی زمینیں واپس کی ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے حکومت نے صرف ان اوقاف کا کلیم واپس کیا ہے جن پر اس نے یہ دعویٰ پیش کیا تھا کہ وہ سرکار کی ملکیت ہیں ۔جن اوقاف پر اسکے قبضے ہیں وہ ابھی تک واپس نہیں ہوئے ۔۷۸ زمینوں کے لئے خود مرکزی حکومت نے اقرار کیاہے کہ ہے ان پر سرکاری قبضے ہیں مگر ابھی تک سرکار کے بقول ان زمینوں کو ٹریس نہیں کیا جاسکا ۔یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ جن زمینوں پر سرکار کے قبضے ہیں ان سے سبھی واقف ہیں اگر وہ نہیں جانتی تو قانونی طور پر ہم تمام اوقاف کی نشاندہی کرسکتے ہیں ۔حکومت صرف مسلمانوں کو بیوقوف بنارہی ہے اور وہ مسلمان لیڈر جو کانگریس کے اشاروں پر زبان کھولتے ہیں وہ کانگریس کی ہمت بڑھارہے ہیں ۔مولانا نے لکھنو¿ کے اوقا ف کے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا کہ ” یہی حال لکھنو¿ کا ہے یہاں بھی کانگریس کے دور حکومت میں زیادہ تر اوقاف کی زمینوں پر قبضے کئے گئے ۔اندرا بھون ،نہرو بھون اور خاص کر ایک قبرستان کی پوری زمین پر رانی لکشمی بائی پارک کی تعمیر حکومت نے کی ۔کہیں بی جے پی کے دور اقتدار میں قبضے ہوئے ہیں تو کہیں کانگریس کے عہد حکومت میں ۔مولانا نے کہاکہ اگر یہ اوقاف کی زمینیں ہمیں مل جائیں تو ہماری قوم کے نوجوانوں کے اقتصادی مسائل حل ہوجائیں گے اور انہیں کہیں باہر جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی ۔
مولانا نے دہلی کربلا شاہ مردان معاملہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” مرکزی حکومت کربلا شاہ مردان معاملے کو شیعہ سنی کا رخ دینے کی کوشش میں تھی مگر وہاں کے اہل سنت علماءو رہنماﺅں نے ہمارا ساتھ دیکر حکومت کی اس سازش کو ناکام کردیا ۔کربلا کی زمین اور قبرستان پر کہیں نر سری ہے تو کہیں بیت الخلا ءتعمیر کردیے گئے ہیں ۔جہاں شیعہ و سنی دونوں کے تعزیہ دفن ہوتے ہیں وہان گندی نالیوں کا پانی ہوکر جاتاہے ۔اور ایک نرسری والے مالی کی حفاظت کے لئے ہمارے احتجاج کے موقع پر ۰۰۵ پولس والے تعینات کئے جاتے ہیں جبکہ ہمارا احتجاج پر امن ہوتاہے ۔اب ہم ۱۳ مارچ کو دہلی میں اور بھی عالیشان پیمانے پر احتجاج کریں گے اور ہمارے علماءکے ڈیلیکشن بھی سونیا گاندھی سے ملاقات کریں گے تاکہ مسائل کا حل نکل سکے ۔اس سے پہلے بھی سونیا گاند ھی سے ملنے کی کوشش کی گئی تھی مگر ان سے ملنے نہیں دیا گیا ۔مولانا نے وقف بچاﺅ تحریک کے پر بیان دیتے ہوئے کہاکہ ”۴۲ مارچ سے انشا ءاللہ ہمارا احتجاج لکھنو¿ سے شروع ہو گا ۔ہم ۴۲ مارچ سے رائے بریلی ،امیٹھی ،مرادآباد نوگانواں سادت اور میرٹھ ہوتے ہوئے ۱۳ مارچ کو دہلی پہونچیں گے ۔اس احتجاج میں علماءاہل سنت کے علاوہ ہندو دھرم گرو بھی شامل ہوں گے اور بڑے پیمانے پر شیعہ علماءبھی ہندوستان کے مختلف علاقوں سے شریک ہوں گے ۔مولانا نے کہا کہ کانگریس کرائم پر کرائم کرتی جارہی ہے مگر مسلمان رہنما خاموش ہیں ۔بابری مسجد جو ۰۰۵ سال پرانی تھی اسے شہید کیا گیا لیکن غوثیہ مسجد ۰۰۷ سال پرانی ہے جس پر کانگریس حکومت کے اشاروں پر بلڈوزر چلوادیے گئے ۔پانچ مسجدیں ایسی ہیں جنکا نشان بھی اب باقی نہیں ہے مگر مسلمان رہنما کچھ نہیں بولتے آخر کیوں ؟در اصل جس پارٹی میں جو مسلمان رہنما ااپنی قوم کو جتنا بڑا نقصان پہونچاتاہے اسے پارٹی میں اتنا ہی بڑا عہدہ دیا جاتاہے ۔“
مولانا عامر رشادی نے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” مسلمانوں کو اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے متحد ہونا ہوگا ۔جو بھی سیاسی پارٹی انکے حقوق کی حفاظت کرے اور انکے مسائل کو حل کرے مسلمان اسکا ساتھ دیں ۔
پریس کانفرنس میں مولانا عامر رشادی ،مولانا رضا حسین ،دہلی سے آئے بہادر عباس کے علاوہ دیگر علماءبھی موجود رہے ۔