ریسرچ اسکالر: نازیہ جعفری
لکھنؤ یونیورسٹی
نوروز کے معنی” نیا دن” کے ہیں. یہ نیا دن نئے سال کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ (١، فروردین/٢١ مارچ ) اور موسم بہار کے آغاز کے ساتھ بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے.
عید نوروز ایران کی قومی عیدوں میں سے سب سے بڑی اور اہمترین عید ہے جو کہ اسلام کے رائج ہونے کے پہلے سے اپنی تمام عظمت ، رسم و رواج کے ساتھ آج بھی باقی و جاری ہے.
جشن نوروز کا آغاز قدیم زمانے میں روایت کے مطابق سال کے پہلے مہینے کی پہلی تاریخ (١، فروردین،قبل از اسلام ) جمشید (ہخامنشی بادشاہ ) کے تخت نشین ہونے کے بعد سے ہوا ، البتہ اس سے پہلے بھی نوروز کا دن معظم و بزرگ سمجھا جاتا تھا . اس دن کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہی جمشید نے یہ دن تخت نشینی کے لئے انتخاب کیا.
اسلام سے پہلے ہخامنشی دور کے بادشاہ اور عوام نوروز کا جشن رسم و رواج کے مطابق سال کے تحویل ہونے کے وقت مناتے تھے جو کہ آج بھی جاری ہے.
عمومی طور پر ایران میں عید نوروز کی رسموں میں( خانہ تکانی ) گھر کی صاف صفائی، گندم یا کوئی دوسری سبز چیز کا اگانا ، انڈ وں کو رنگنا، دید و باز دید، سیزدہ بہ در ہیں. انکے علاوہ عید نوروز سے پہلے چہار شنبہ سوری، حاجی فیروز کا گلی کوچوں میں نکلنا، رقص کرنا ،شعر سنانا وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں.
خانہ تکانی: یعنی گھر کی صاف صفائی. در و دیوار، کھڑکیوں کی صفائی رنگائی ، قالینوں کی دھلائی وغیرہ نوروز سے ٣،٤ ہفتہ پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے. گھر کے ہرحصّے کی اچھی طرح صفائی کی جاتی ہے.نئے پردے اور سجاوٹ کے ساز و سامان سے گھروں کی رونق میں اضافہ کیا جاتا ہے .
گیہوں اگانا : عید نوروز سے ١٠- ١٥ روز پہلے ہر گھر میں گیہوں یا کوئی دوسری سبز چیز اگاتے یا بازار سے خرید کر لاتے ہیں جسے سبزہ کہتے ہیں، یہ سبزہ سفره هفت سین کے لئے تیّار کیا جاتا ہے.
سفره ہفت سین : سفره ہفت سین یعنی ٧ طرح کی سینیوں سے سجا ہوا دسترخوان ،عید نوروز کی اہمترین رسموں میں سے ہے جس میں ٧ طرح کی ” س ” سے شروع ہونے والی اشیاء کو دسترخوان پر سجایا جاتا ہے مثلا سیر (لہسن)، سیب ، سرکہ ، سمنو (گندم سے تیّار شدہ شیرینی) ، سنجد (پھل)، سماق(ایک طرح کا مصا لہ) اور سبزہ .
اگر گزشتہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ سفره ہفت سین پہلے سفره ہفت شین ہوا کرتا تھا جو کہ بعد میں ہفت سین میں تبدیل ہوا . قبل از اسلام سفره ہفت شین میں شمع ، شراب ، شیرینی ، شہر ، شمشاد
( ایک طرح کا درخت ) ، شربت و شقایق (ایک طرح کا پھول ) یا شاخه نبات( شیرینی ) ہوا کرتے تھے.
ہخامنشی دور میں عید نوروز کے دسترخوان پر طرح طرح کی غزائیں ٧ طرح کے چینی ظروف میں سجائی جاتی تھیں اسی وجہ سے انہیں ہفت چین یا ہفت چیدنی کہا جاتا تھا. ہخامنشی دور کے بعد ساسانی دور میں سفره ہفت چین تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ سفره ہفت شین میں تبدیل ہوا. ساسانی حکمرانوں کے سقوط کے بعد جب ایرانیوں نے اسلام قبول کیا تو کوشش کی کہ اپنے قدیم زمانے سے چلے آ رہے رسم و رواج کو ختم نہ ہونےدیں… کیونکہ اسلام میں شراب کو حرام قرار دیا گیا تھا اسلئے “شراب” کی جگہ “سرکہ” کو انتخاب کیا گیا. بقیہ چیزوں میں بھی تبدیلی کی گیی. اس طرح “ش” کی جگہ “س” سے شروع ہونے والی چیزوں کو دسترخوان پر سجایا جانے لگا اور سفره ہفت شین …سفره ہفت سین میں تبدیل ہو گیا.
ان ہفت سین (سیر ، سب ، سرکہ ، سمنو ، سنجید ، سماق و سبزہ ) میں نوروز کے دسترخوان پر آئینہ، چاول ، سکّہ ، آب ولال مچھلی کا رکھنا بھی ضروری منا جاتا ہے کیونکہ آئنیہ حقیقت کی علامت ہے، چاول و سکّہ خیر و برکت اور فراوانی کی علامت ہے آب و مچھلی پاکیزگی و شگن کی علامت ہے . انکے علاوہ بھی چند چیزیں مثلا رنگین انڈے ، میوے ، کیوڑا ، نان و پنیر وغیرہ سے نوروز کے دسترخوان کی شان میں اضافہ کیا جاتا جاتا ہے. بعض افراد دیوان حافظ یا شاہنامہ فردوسی کو بھی دسترخوان پر سجاتے ہیں .
نئے لباس و اسباب خانہ کی خرید : عید نوروز سے پہلے بازاروں کی رونق دیکھنے کے لائق ہوتی ہے…بچے و بزرگ سبھی عید نوروز کے لیے نۓ لباس و رنگین کپڑے خریدتے ہیں.گھروں کے لئے نے پردے، قا لینیں، طرح طرح کی آرایش کا سامان،عطروغیرہ کی بھی خرید کرتے ہیں. عید کے دن بڑے بزرگ ،بچے، نوجوان سبھی نے لباس پہنتے ہیں اسکے علاوہ عطر وغیرہ بھی لگاتے ہیں اور اپنی خوشی کا اظہر کرتے ہیں.
چہار شنبہ سوری : چہار شنبہ سوری جشن موسم بہار ہے جو کہ سال کے آخری چہار شنبہ ( بہ روز بدھ ) کو منایا جاتا ہے. سوری کے معنی “جشن” و “مہمانی ” کے ہیں. اس جشن کا آغاز الاؤ جلا کر کیا جاتا ہے. چہار شنبہ کو بچے ، عورتیں، مرد، پیر و جوان سبھی ساتھ مل کر خشک گھانس و خار کوایک جگہ جمع کرتے ہیں اور آفتاب کے غروب ہوتے ہی اس کو جلا دیتے ہیں . بڑوں سے بچوں تک سبھی اس الاؤ کے اوپر سے٣ مرتبہ چھلانگ لگاتے ہوئے غم و درد، بلا و مصیبت، مرض و ضعف کے دور ہونےکی، سلامتی و خوشی اور اپنی آرزؤں کے پورا ہونے کی دعا کرتے ہوئے یہ شعرپڑھتے ہیں :
زردی من از تو سرخی تو از من
غم برو شادی بیا محنت برو روزی بیا
ای شب چهار شنبه ، ای کلیه جار دنده ، بده مراد به بنده.
مانا جاتا ہے کہ چهار شنبه سوری کی شب اس خوشک گھانس و خار کی جمع ہوئ خاک نحس ہوتی ہے کیونکہ لوگ آگ کے اوپر سے چھلانگ لگاتے وقت اپنی دکھ بیماری اس آگ کو سونپ دیتے ہیں اور اسکےعوض میں آگ کی سرخی و شادابی اپنے میں منتقل کر لیتے ہیں.لہٰذا اس راکھ کو جمع کر کے چوراہے پر ڈال دیتے ہیں یا اب رواں میں بہا دیتے ہیں تاکہ ہوا یا پانی اسے اپنے ساتھ لے جائے.
قاشق زنی: قاشق زنی چہار شنبہ سوری کی رسموں میں سے ہے. اس رسم میں آرزومند لڑکیاں لوگوں کے گھروں کی چوکھٹ پر قاشق(چمچے) سے کاسہ ( کٹورے ) کو بجاتی ہیں. صاحب خانہ جانتے ہیں کے یہ لڑکیاں حاجتمند ہیں. ایسا ماننا ہے کہ اگر لوگ گھر سے باہر آکر انکے کاسہ میں شیرینی،میوے یا پیسے وغیرہ ڈالتے ہیں تو آنے والے سال میں انکی حاجت پوری ہوگی اور اگر کسی در سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تو آنے والے سال میں انکی مراد پوری نہ ہوگی.
کوزہ شکنی یعنی کوزہ توڑنے کی رسم : یہ رسم قدیم زمانے میں چہار شنبہ سوری کو منائی جاتی تھی. البتہ یہ رسم کئی علاقوں میں خاص کر دیہاتی علاقوں میں آج بھی زندہ ہے.
اس رسم میں ایک کوزہ میں کم ارزش سکّہ جو کہ فقیری و تنگدستی کی علامت ہے، نمک جو کہ بد چشمی اور کوئلہ جو کہ سیاہ بختی کی علامت ہے سال بھر استمعال کے ہوئے کوزہ میں ڈال کر گھر کا ہر ایک شخص صدقہ کرنے کے انداز میں اپنے سر پر سے گھماتے ہوئے ایک دوسرے کو دیتا ہے آخری شخص گھر سے درد و غم ، مصیبت و بلا، تنگدستی و سیاہ بختی دور کرنے کی دعا کرتے ہوئے اس کوزہ کو چھت پر سے گلی کوچہ میں پھینک دیتا ہے.
نوروز سے پہلے کی رسموں میں ایک خاص رسم ،سال کے آخری پنج شنبہ کو قبرستان جانا..گزشتہ مہینوں میں انتقال کر چکے اپنے عزیزوں کو یاد کرنا، ہے . اس دن کچھ لوگ قبرستان جاتے وقت اپنے ساتھ سبزہ( اگاے ہوئے گیہوں، دال وغیرہ ) بھی لے جاتے ہیں جسے اپنے عزیزوں کی قبر کے نزدیک رکھتے ،فاتحیہ پڑھتے اور انکی مغفرت کی دعا کرتے ہیں. لوگوں میں شیرینی، میوے و پھل وغیرہ بھی تقسیم کرتے ہیں.
حاجی فیروز : حاجی فیروز یا حاجی پیروز وہ شخص ہے جسے صرف نوروز شروع ہونے سے پہلے سیاہ رنگ میں رنگا ہوا سرخ لال رنگ کے لباس و ٹوپی میں ایران کی گلی کوچوں، سڑک و بازار میں ناچتے گاتے- بجاتے دیکھائ دیتا ہے . جو اپنے رقص و نغموں سے لوگوں کے دلوں کو شاد کرتا اوراسکے عوض میں انسے پیسے لیتا ہے. حاجی فیروز کا مشہور شعر جو ہمیشہ اسکی زبان پر ہوتا ہے :
حاجی فیروزہ ، سالی یہ روزہ ، ہمہ میدونن ، منم میدونم ، عید نوروزہ.
رنگین انڈے : عید نوروز میں انڈوں کو مختلف خوشنما رنگوں سے رنگنا بھی نوروز کی رسموں کا ایک اہم حصّہ ہے یہ رنگین انڈے عید کے روز بچوں کو عیدی میں دیئے جاتے ہیں .
تحویل سال کے وقت کی رسم : نۓ سال کے تحویل کے وقت سبھی اہل خانہ نۓ لباس میں ایک ساتھ سفره ہفت سین کے ارد گرد بیٹھتے ہیں . مادر گرامی لوبان یا خوشبودار اگربتی روشن کرتی ہیں ، بچے شمع روشن کرتے ہیں اور والد محترم قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں . ان رسموں کا تحویل سال کے وقت انجام دینے کا ایک اہم مقصد ہوتا ہے . مادر گرامی لوبان و اگربتی کی دھونی دیتی ہیں تا کہ نۓ سال میں حسد و جلن اور لوگوں کی بری نظر سے اہل خانہ محفوظ رہیں. شمع روشنی کی علامت ہے، بچے گھر کی تاریکی و بدی دور کرنے کے لئے شمع روشن کرتے ہیں، والد محترم قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں تا کہ نۓ سال میں خدا وند عالم کی رحمتوں سے فیضیاب ہو سکیں ،خدا کے بتاے ہوئے راستوں پر چلیں اور انکے دل ہمیشہ خدا کے نور سے روشن رہیں .
تحویل سال کی مخصوص دعا : نیا سال شروع ہوتے ہی تحویل سال کی یہ مخصوص دعا پورے خلوص سے پڑھی جاتی ہے.
“یا مقلب القلوب و الابصار یا مدبر اللیل و النهار یا محول الحول والاحوال حول حالنا الی احسن الحال “
دید و باز دید یعنی ملاقاتوں کا سلسلہ : عید کے پہلے دن سے ملاقاتوں اور دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے رسم کے مطابق پہلے بزرگوں سے ملاقات کے لئے جاتے ہیں عید کی مبارکباد دیتے ہیں .گھر لوٹنے کے بعد بڑے بزورگوں کے آنے کا انتظار کرتے ہیں .ان ملاقاتوں اور دعوتوں کے دوران عیدی لینے اور دینے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے. ملاقاتوں کا یہ سلسلہ دوستوں ہمسایوں اورخاندان کے تمام افراد کے علاوہ سال گزشتہ کے مصیبت زدہ عام لوگوں کے ساتھ بھی تا روز سیزدہ بہ در(١٣، فروردین تک ) جاری رہتا ہے .
سیزدہ بہ در : جیسا کہ بیان ہو چکا ہے جشن نوروز کا آغاز چہار شنبہ سوری سے ہوتا ہے لیکن اسکا اختتام بہ روز سیزدہ بہ دریعنی نئے سال کے تیرھویں دن (١٣، فروردین) کو ہوتا ہے.
شہروں اور گاؤں میں یہ رسم ہے کہ سبھی اہل خانہ ١٣ ، فروردین کو اپنے گھر و سراے چھوڑ کر سارا دن اپنے دوستوں عزیزوں رشتیہ داروں کے ساتھ قدرتی مناظر کی آغوش میں صرف کرتے ہیں . سبھی اپنے ساتھ” سبزہ ” لاتے ہیں اور ندی نہر ، جنگل باغ یا باغیچہ میں چھوڑ دیتے ہیں .
ایرانیوں کا ماننا ہے کہ ١٣، فروردین کوان سبز ہوئے گندم(سبزہ ) وغیرہ کو ہر حال میں گھر سے باہر لے جانا چاہیےاسکا گھر میں رہنا اور خشک ہونا نحص ہوتا ہے . اس دن لوگ اپنا ضروری سے ضروری کام چھوڑکر اپنے عزیزوں کے ساتھ گھر سے دور ایک معیین جگہ پر ملتے ہیں …پورا دن خوشی و مسّرت سے گزارتے ہیں .کہتے ہیں اس دن کوئی بھی کام انجام نہ دیا جائے کیونکہ ١٣ ، فروردین کو بدشگن و نحص قرار دیا گیا ہے اسی لئے لوگ اپنے کام چھوڑ کر قدرتی مناظر کے دامن میں اپنا دن گزارتے ہیں.
اس دن کی ایک خاص رسم ایک دوسرے کو بیوقوف بنانا، ہنسی مزاق کرنا بھی ہے. لوگ ایک دوسرے کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں. ٹھیک اسی طرح جیسے ہندوستان میں ١ ،اپریل کو لوگ ایک دوسرے کو بیوقوف بناتے ہیں.اس دن کی ایک اور خاص رسم “علف گرہ زدن” (گھانس میں گرہ لگانا ) ہے.”کیومرث” جو کہ ایرانی افسانوں میں پہلا بشرقبول کیا گیا ہے جسکی اولادوں میں سے پہلی مرتبہ اس دنیا میں شادی کی تھی جنکے نام ” مشیــه و مشیـــانه” تھے . کیونکہ اس زمانے میں عقد و نکاح کا کوئی وجود نہ تھا ، انہوں نے گھانس کی دو پتیوں کو اپس میں گرہ باندہ کر اپنی ازدواجی زندگی کی شروعات کی تھی .
ایرانی اس قصه سے با خوبی آشنا تھے اس لئے قدیم زمانے سے گھانس کی پتیوں میں گرہ باندھنے کی رسم آج بھی چلی آ رہی ہے . ہر سال سیزدہ بہ در کے روز نوجوان نۓسال میں ازدواج کی آرزو کے ساتھ گھانس کی دو پتیوں کو اپس میں باندھتے ہیں اور اپنی خوشبختی کے لئے دعا کرتے ہیں.
عید نوروز اور اسلام : نوروز وہ دن ہے کے جس روز آفتاب برج حمل میں داخل ہوتا ہے تحویل آفتاب کا وقت نہایت مبارک مانا جاتا ہے، جناب معلی بن جنیس جو حضرت امام جعفر صادق (ع) کے صحابی تھے منقول ہے کہ انہوں نے اس دن کی فضیلتوں کو بیان فرمایا ہے ” یہ وہ دن ہے جب دعائیں قبول ہوتی ہیں. یہی وہ دن ہے کہ جس روز آفتاب کی پہلی کرن زمیں پر پہونچی . اسی روز حضرت نوح (ع ) کی کشتی نے طوفان کے بعد ساحل جودی پرآرام پایا.اسی روز خدا وند عالم نے ان چند ہزار انسانوں کو زندہ فرمایا جو موت کے خوف سے اپنے علاقے کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور خدا نے ان سب کو موت دے دی تھی،ایک مدّت کے بعد جب انکی بوسیدہ ہڈییاں رہ گئیں اور حضرت پیغمبر حزقیل (ع ) کا ادھر سے گزر ہوا ، آپ نے خدا وند عالم سے سوال کیا کہ اے پالنے والے مجھے دیکھا دے کہ تو کس طرح بوسیدہ ہڈییوں کو زندہ کرتا ہے…خدا وند عالم کی طرف سے وحی ہی کہ تم ان پر پانی چھڑکو، چنانچیہ پیغمبر نے ان پر پانی چھڑکا…وہ سب بہ قدرت خدا زندہ ہو گئے .ایک دوسرے پر پانی چھڑکنے کی رسم تب سے اب تک جاری ہے.. یہی وہ روز ہے جب امیرالمومنین (ع) نے دوش مبارک حضرت رسول خدا (ص) پر سوار ہو کر خانہ کعبہ میں بت شکنی کی تھی. یہی وہ روز ہے جس دن پیغمبر اسلام(ص) نے غدر خم میں حضرت علی (ع) کے لئے لوگوں سے بیعت لے لی، انکی ولایت کا اقرار کرایا ، اور انہیں ظاہری خلافت ملی. اسی روز حضرت علی (ع) نے اہل نہروان پر فتح حاصل کی اور ذوالثدیہ کو قتل کیا.یہی وہ روز ہے جب صاحب العصر(ع) کا ظہور ہوگا اسی روز باقی امام بھی دنیا کی طرف رجعت کریں گے.
امام صادق (ع) سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت حزقیل (ع) کے زمانے میں خدا نے وحی کے ذریعے بتایا کہ یہ دن میرے نزدیک نہایت عظیم و بلند مرتبہ رکھتا ہےاس روز اگر کوئی مومن مجھ سے حاجت مانگے، وہ پوری ہوگی.
عید نوروز کے احکام :حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے اس روز غسل کرکے پاک و بہترین لباس پہنو ، بہترین خوشبودار عطر لگاو روزہ رکھو نمازیں پڑھو،دشمنیوں، کینوں کو اپنے سے دور کرو قید یوں کو آزاد کرو، دعائیں مانگو. خدا وندعالم کے نزدیک یہ دن بہت عظیم ہے اس دن گناہ معاف و دعائیں قبول ہوتی ہیں.
ہندوستان میں جشن عید نوروز : عید نوروز کا جشن ہندوستان میں بھی ہر سال بہ روز ١، فروردین بمطابق ٢٠ / ٢١ مارچ کو بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے. یہاں جشن کا آغاز بوقت تحویل آفتاب … پھلوں، میوں ، طرح طرح کی رنگین مٹھائیوں ، شربت و شیر وغیرہ پر مــولاۓ کائنات حضرت علی (ع) کی نذر کے ساتھ شروع ہوتا ہے. صبح سے دو پہر تک ایک دوسرے پر کیوڑا گلاب اور رنگ ڈال کر اپنی خوشی کا اظہارکرتےہیں ، نۓ لباس پہنتے ہیں ،خوشبودار عطرلگاتے ہیں، ایک دوسرے کو نۓ سال کی مبارکباد دیتے ہیں. عبادت و نیک اعمال کرتے ہوئے سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں.