شام کی خانہ جنگی نے دنیا کا سیاسی نقشہ بدل کے رکھ دیا ہے اور یقین نہیں آتا کہ اس کا آغاز محض ایک بچے کی نادانی کے سبب ہوا.
اس لڑکے نے خون سے لال ہوتی شام کی زمین اور اس کے عالمی سطح پر پڑنے والے بھاینک اثرات کو دیکھ کر برملا یہ کہا کہ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ یہ سب کچھ ہوگا تو میں کبھی بھی ایسا نہ کرتا.
یہ بچہ شامی حکومت کے مظالم اور ناگہانی موت کے اندیشوں میں اب جوان ہوچکا ہے اور شام کے شہر درہ میں رہتا آرہا ہے. اس کا نام معاویہ سیاسنہ ہے.
یہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہتا تھا. عام بچوں کی طرح اسے بھی اسکول پڑھنے کا شوق اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا تھا. معاویہ 7ویں جماعت تک اپنی تعلیم کو جاری رکھ پایا.
یہ اس وقت کی بات ہے جب معاویہ 14 سال کا تھا اور اس سے غیر ارادی طور پر ایک ایسا کام سرزد ہوا جس نے شام کی تاریخ ہی بدل ڈالی. ہوا کچھ یوں کہ شامی حکومت کے مظالم اور اس کی آمریت سے تنگ آکر عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ حکومت کیخلاف ہوگیا. اسی دوران معاویہ نے اسکولوں کی دیواروں پر حکومت کیخلاف وال چاکنگ کرنا شروع کی.
یہ 9 فروری 2011 کی بات ہے، معاویہ کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی اس بےباکانہ حرکت کا نتیجہ سالوں تک جاری خانہ جنگی کی صورت میں نکلے گا اور 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد، خواتین و بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھٰیں گے.
معاویہ کے علاقے میں اسدی فوج کا جب گزر ہوا تو اس نے دیواروں پر حکومت مخالف تحریروں کو دیکھا تو سیخ پا ہوگئی اور کچھ ہی دنوں میں معاویہ کا رہائشی محلہ گولہ باری اور بم حملوں کی نذر ہوگیا. یہاں سے شام کی تاریخ نے ایک بھیانک روپ دھارا اور تکالیف اور زخموں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو شاید کبھی بھی مندمل نہ ہوسکے.