روم میں جی 20 کے رہنماؤں کے اجلاس میں گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کے کلیدی ہدف کا عزم کیا گیا اور کوئلے کے استعمال پر کارروائی کا وعدہ کیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 20 بڑی معیشتوں کے گروپ کے وعدوں کو، جو دنیا کا تقریباً 80 فیصد کاربن کا اخراج کرتے ہیں، اگلے پندرہ روز میں گلاسگو میں ہونے والے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی مذاکرات کی کامیابی کے لیے اہم تصور کیا جارہا ہے۔
معاہدے کے مسودے کے مطابق، جس کے بارے میں متعدد ذرائع نے کہا کہ یہ حتمی مسودہ ہے، رہنماؤں نے 2015 کے پیرس اجلاس میں طے پانے والے اہم وعدوں کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔
اس میں کہا گیا کہ ’1.5 ڈگری کے عزم کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام ممالک کی جانب سے بامعنی اور موثر اقدامات کی ضرورت ہوگی‘۔
سفارت کاروں نے کہا کہ پیرس معاہدے کے مقابلے میں استعمال کی گئی زبان زیادہ سخت تھی تاہم رضاکار تنظیموں نے حتمی بیان کو ’کمزور‘ قرار دیا۔
بیان کے مطابق امریکا، چین، بھارت، روس، اور یورپی یونین سمیت جی 20 ممالک کے رہنما واضح قومی منصوبوں پر زور دیتے ہیں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ 1.5 ڈگری کے ہدف کو پورا کرنے کا مطلب ہے کہ 2030 تک عالمی اخراج کو تقریباً نصف تک کم کرنا اور 2050 تک ’صفر‘ تک پہنچ جانا ہے جبکہ جی 20 کے مسودے میں کوئی تاریخ نہیں دیہ گئی ہے جو صرف صفر کے ہدف تک پہنچنے کی بات کرے۔
رہنماؤں نے 2021 کے آخر تک بیرون ملک نئے کوئلے کے پلانٹس کے لیے فنڈنگ ختم کرنے پر اتفاق کیا جن کا اخراج کسی فلٹرنگ کے عمل سے نہ گزرتا ہو۔
عزائم کا فقدان
ماحولیاتی مہم گروپ گرین پیس نے حتمی بیان کو ’کمزور، عزائم اور نظریے کے بغیر‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جی 20 کے رہنما ’اس لمحے کی ضرورت کو پورا کرنے میں ناکام رہے‘۔
گرین پیس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر جینیفر مورگن نے کہا کہ ’اگر جی 20 سی او پی 26 کے لیے ڈریس ریہرسل تھا تو پھر عالمی رہنماؤں نے حد پار کردیں‘۔
انسداد غربت گروپ گلوبل سٹیزن کے سینئیر ڈائریکٹر فریڈریک روڈر نے کہا کہ سربراہی اجلاس نے ’ٹھوس اقدامات کے بجائے آدھے ادھورے اقدامات‘ کیے ہیں۔
تاہم فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اس سے قبل کہا تھا کہ گلاسگو مذاکرات کی کامیابی کو ختم کرنا قبل از وقت ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے شہر میں ہونے والی اقوام متحدہ کے اجلاس میں تقریباً 200 ممالک جمع ہو رہے ہیں جبکہ روم میں موجود بہت سے رہنما بشمول امریکی صدر جو بائیڈن سیدھے وہاں جا رہے ہیں۔
چین جو اب تک دنیا کا سب سے بڑا کاربن آلودگی پھیلانے والا ملک ہے، نے 2060 سے قبل اپنی معیشت کو کاربن فری بنانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے تاہم اس نے اہداف کو قریب کرنے کے دباؤ کی مزاحمت کی ہے۔
دریں اثنا بھارت کا کہنا ہے کہ اگر 2050 تک خالص صفر کا عالمی ہدف ہے تو امیر ممالک کو دس سال قبل کاربن نیوٹرل ہونا چاہیے تاکہ غریب، ابھرتی ہوئی معیشتوں کو کاربن الاؤنس اور ترقی کے لیے زیادہ وقت مل سکے۔