لکھنؤ۔(نامہ نگار)۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد اترپردیش بی جے پی میں غیر اطمینانی اب کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ ضلع ریاستی صدر دفتر سے لیکر ضلع دفاتر تک دھرنے و مظاہرے جاری ہیں۔ حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ریاست کے بی جے پی صلاح کار ایک طرف شعلوں کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری جانب شعلے آگ کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ بغاوت کے تیور لکھنؤ سے ہوتے ہوئے تقریباً دو درجن اضلاع کو اپنی زد میں لے چکے ہیں۔ کہیں کہیں پر تو کارکنان کے دو گروپ بن گئے ہیں اور تصادم کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ بی جے پہ کارکنان کا الزام ہے کہ
اترپردیش بی جے پی میں پرانے کارکنان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
پارٹی تبدیل کرنے والے نئے چہروں کو ٹکٹ دیاگیا ہے جو علاقہ میں کبھی نہیں گئے۔ حالانکہ کارکنان اور امیدواروں کے درمیان کسی طرح کی غیر اطمینانی سے انکار کرتے ہوئے بی جے پی کے اعلیٰ لیڈر اور آر ایس ایس کے عہدیدار اسے اندرونی معاملہ بتا رہے ہیں اور جلد سے جلد اس معاملہ کو حل کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن مسئلہ کیسے حل ہوگا اس پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ سیاسی مبثرین کہہ رہے ہیں کہ اگر یو پی بی جے پی نے اندرونی خلفشار کو دبانے کی پالیسی اختیار کی تو مودی لہر پر مخالف آوازیں قابض ہوسکتی ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ پرانے کارکنان کی ناراضگی مل بیٹھ کر حل کی جائے ۔ لیکن اگر با وثوق ذرائع کی بات کو تسلیم کر لیا جائے تو ریاستی بی جے پی کے اہل لیڈر جو اس مسئلہ کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ساری ذمہ داری اترپردیش کے انچارج امت شاہ و ریاستی بی جے پی کے صدر ڈاکٹر لکشمی کانت باجپئی کے کندھوں پر ہے۔
دہلی سے لوٹنے کے بعد بی جے پی کے ریاستی صدر تمام امیدواروں کو اتحاد کی تلقین دے رہے ہیں لیکن کارکنان پر اس کا کوئی اثر نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق باجپئی کارکنان کے سوالوں سے چہار طرفہ گھرے ہوئے ہیں۔ کارکنان کا الزام ہے کہ جب مودی کی ریلی میں لوگوں کو جمع کرنے کی تیاری تھی اس وقت کارکنان کو ذمہ داری کا سبق دیا گیا اور جب ٹکٹ دینے کا وقت آیا تو باہر کے لوگوںکو ٹکٹ دیا گیا یہ بات اب برداشت نہیں ہوگی۔ کارکنان کی مخالف آوازوں کی زد میں لکھنؤ، مرزاپور، مئو، جونپور، چندولی، فیض آباد ، مظفرنگر اور غازی آباد کی پارلیمانی نشست کے علاوہ تقریباً دو درجن اضلاع آگئے ہیں۔ پارلیمانی حلقہ کے گھوسی میں بی جے پی کے امیدوار ہری نرائن راج بھر کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔
کارکنان کے ایک گروپ نے راج ناتھ سنگھ اور امت شاہ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ان کا پتلا نذر آتش کیا۔ کارکنان کا کہنا ہے کہ سینئر بی جے پی لیڈر وویک پانڈے نے پارٹی کی خدمات کے عوض انہیں ٹکٹ نہیں دیا۔ جونپورمیں کے پی سنگھ کو بی جے پی نے میدان میں اتارا ہے جبکہ یہاں سے سوامی چنمیا نند ، سیما دیویدی اور ڈاکٹر ہریندر سنگھ کا نام بی جے پی کی فہرست میں تھا لیکن ان میں سے کسی کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ ڈاکٹر ہریندر سنگھ نے الزام عائد کیا ہے کہ بی جے پی نے انہیں دھوکہ دیا ہے جس کے بعد بی جے پی میں دو گروپ ہو گئے ہیں۔ چندولی میں مہندر پانڈے کو ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ رکن اسمبلی سشیل سنگھ کا نام سر فہرست تھا۔ اب یہاں پر بھی مخالفین کی آوازیں زور پکڑتی جا رہی ہیں اور کارکنان بھی مخالفت کر رہے ہیں۔
ریاست کے فیض آباد کی پارلیمانی نشست سے بی جے پی امیدوار للو سنگھ کی بھی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ مخالفت کا یہ سلسلہ اجودھیا سے شروع ہو اہے اور وہاں سے پانچ مرتبہ مسلسل بی جے پی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی ۲۰۱۲ء کے اسمبلی انتخابات میں ناکام ہو گئے تھے۔ اس سے قبل انہیں ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخابات میں امیدوار بنایا گیا اور تیسرے نمبر پر وہ آگئے تھے۔
پارلیمنٹ اور اس کے بعد اسمبلی انتخابات میں ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر انہیں فیض آباد سے بی جے پی کا امیدوار بنانے پر اجودھیا کے سابق سنتوں اور باشندوں نے راج ناتھ سنگھ کا پتلا نذر آتش کیا اور للو سنگھ کو امیدوار بنانے کے خلاف نعرے لگائے۔