سعودی عرب کے خفیہ سربراہ بندر بن سلطان نے یورپی سفارتکاروں کے ساتھ بات چیت میں شام کے سلسلے میں امریکہ کے نقطہ نظر میں تبدیلی اور اس بات کی تنقید کرتے ہوئے جسے انہوں نے تہران سے واشنگٹن کی قربت قرار دی ہے، کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ ریاض کے تعلقات اور تعاون کو محدود کیا جائے گا. سعودی خفیہ سربراہ پرنس بندر نے کچھ دن پہلے یورپی كوٹنيكو سے بات چیت میں کہا کہ امریکہ نے شام بحران پر عطا کی ہے اور وہ انہی کے الفاظ میں ایران سے قریب ہو رہا ہے. بندر نے دعوی کیا کہ امریکہ نے بهرےني عوام کی انقلاب کے مقابلے میں آل خلیفہ حکومت کو سعودی عرب کی جانب سے دیئے گئے حمایت کی حمایت نہیں کی. بندر نےسفارتکاروں سے کہا کہ وہ شام میں سرگرم دہشت گردوں کو تربیت دینے اور انہیں ہتھیار مہیا کرنے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کو کم کرنا چاہتے ہیں.
برطانوی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق سعودی عرب کے انٹیلی جنس امور کے نگران شہزادہ بندر بن سلطان نے یورپی سفارت کاروں کو امریکہ سے متعلق سعودی رویے میں آنے والی متوقع “اہم تبدیلیوں” سے مطلع کردیا ہے۔
‘رائٹرز’ نے سعودی عرب کے پالیسی امور سے متعلق ایک اہم ذریعے کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ شہزادہ بندر نے یورپی سفارت کاروں کے ساتھ ہونے والی اپنی حالیہ بات چیت میں واضح کیا ہے کہ سعودی عرب نے شام کے بحران پر کوئی واضح اقدام کرنے اور مسئلۂ فلسطین کے حل میں ناکامی اور تہران کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوششوں پر بطورِ احتجاج امریکہ کے ساتھ اپنے روابط میں “اہم تبدیلیاں” لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ سعودی انٹیلی جنس چیف کے مذکورہ بیان کو سعودی عرب کے حکمران شاہ عبداللہ کی آشیرواد حاصل ہے یا نہیں۔
‘رائٹرز’ نے اپنے ذریعے کی شناخت ظاہر کیے بغیر رپورٹ میں کہا ہے کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر سعودی عرب امریکہ پر مزید انحصار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور اسی لیے اس نے اپنی خارجہ پالیسی میں جوہری تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ 1932ء میں مملکتِ سعودی عرب کے قیام کے بعد سے ریاض اور واشنگٹن ایک دوسرے کے قریبی اتحادی رہے ہیں۔ سعودی عرب امریکی اسلحے کا بڑا خریدار ہے جب کہ امریکی حکومت سعودی عرب سے تیل خریدتی ہے۔ سنہ 1990 کی دہائی میں خلیجی جنگ کے بعد سے سعودی عرب میں امریکی فوجی دستے بھی تعینات ہیں۔
دوسری طرف برطانیہ کے امپیریل کالج کے پروفیسر ريم تركماني نے سعودی عرب کے اس نقطہ نظر کے بارے میں کہا کہ سعودی عرب ، ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے بہتر ہونے کا امکان سے فکر مند ہے. انہوں نے کہا کہ سعودی عرب شام کے بحران کے سیاسی حل کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر رہا ہے.