جوہانسبرگ: نسلی امتیاز کے خلاف ایک توانا آواز سمجھے جانے والے جنوبی افریقی آرچ بشب ڈیسمنڈ ٹوٹو گزشتہ روز 90 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ملک کی اخلاقی مشعل راہ سمجھے جانے والے اور امن کے نوبل انعام یافتہ ڈیسمنڈ ٹوٹو کی وفات پر خراج عقیدت پیش کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
ڈیسمنڈ ٹوٹو حالیہ برسوں میں عوامی زندگی سے بڑی حد تک دور ہوگئے تھے، انہیں ان کے مزاح، مخصوص مسکراہٹ اور سب سے بڑھ کر ہر طرح کے نسلی امتیاز اور ناانصافیوں کے خلاف ان کی انتھک جدوجہد کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔
گزشتہ روز ڈیسمنڈ ٹوٹو کی وفات کا اعلان کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کے صدر سرل رامفوسا نے انہیں ’نسل پرستی کی قوتوں کے خلاف غیر معمولی طور پر ذہین، دیانتدار اور ناقابل تسخیر‘ شخص قرار دیا۔
ملک کے آخری سفید فام صدر ایف ڈبلیو کلرک کی وفات کے کچھ ہفتوں بعد ڈیسمنڈ ٹوٹو کی وفات کا اعلان کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کے صدر کا کہنا تھا کہ ’آرچ بشپ ایمیریٹس ڈیسمنڈ ٹوٹو کا انتقال ہمیں ایک آزاد جنوبی افریقہ دینے والے ان بہترین جنوبی افریقی افراد کی نسل کو الوداع کہنے میں ایک اور سوگوار باب ہے‘۔
سابق امریکی صدر اور امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوباما نے بھی ڈیسمنڈ ٹوٹو کو ایک بلند پایہ شخصیت اور ’اخلاقی قطب نما‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’وہ ایک آفاقی شخصیت تھے، وہ اپنے ملک میں ہی آزادی اور انصاف کے لیے جدو جہد نہیں کرتے رہے بلکہ دنیا بھر میں ہونے والی ناانصافیوں پر فکر مند رہے‘۔
ڈیسمنٹ ٹوٹو کے انتقال پر سوگوار افراد کیپ ٹاؤن کے سینٹ جارج کتھیڈرل اور ڈیسمنڈ ٹوٹو کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوگئے، جنوبی افریقی ٹیم نے بھی بھارت کے خلاف کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے دوران بازو پر سیاہ پٹیاں باندھیں۔
انتھک جدو جہد کرنے والے ڈیسمنڈ ٹوٹو کو 1984ء میں ملک میں سفید فام اقلیت کی حکومت کے خلاف جدو جہد کرنے پر امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ جب نیلسن منڈیلا 1994ء میں جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے تو ٹوٹو نے ہی جنوبی افریقہ کے لیے ’رین بو نیشن‘ کی اصطلاح متعارف کروائی۔
ڈیسمنڈ ٹوٹو 1996ء میں ریٹائر ہوئے اور سچائی اور مفاہمتی کمیشن کے سربراہ کے طور پر جنوبی افریقہ کے سفاکانہ ماضی میں ایک ہولناک سفر کی قیادت کی، اس کمیشن نے نسل پرست حکومت کے دور میں ہونے والی ہولناکیوں سے پردہ اٹھایا تھا۔
ٹوٹو نے حکمران جماعت افریقن نیشنل کانگریس پر بھی تنقید کی جو کہ سفید فام اقلیتوں کی حکمرانی کے خلاف جنگ میں صفِ اول پر تھی، انہوں نے کابینہ کے وزراء کو فراخدلی سے دی جانے والی تنخواہوں پر نیلسن منڈیلا کو چیلنج کیا اور سابق صدر جیکب زوما کے دور میں پھیلنے والی بدعنوانی پر سخت تنقید کی۔