کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 مردوں میں بانجھ پن کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔یہ بات بیلجیئم میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔طبی جریدے فرٹیلیٹی اینڈ اسٹیریلیٹی جرنل میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس مردوں میں اسپرم کاؤنٹ میں کمی کا باعث بن سکتا ہے جس سے باپ بننے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔اس تحقیق میں 120 مردوں کو شامل کیا گیا تھا جن کی اوسط عمر 35 سال تھی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے ایک ماہ کے اندر 37 فیصد مردوں میں اسپرم کی تعداد میں کمی آئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بیماری کے ایک سے 2 ماہ بعد 29 فیصد مردوں میں اسپرم کاؤنٹ میں کمی کو دریافت کیا گیا جبکہ 6 فیصد مردوں میں بیماری کے 2 مہینے بعد بھی یہ کمی دیکھنے میں آئی۔
محققین نے بتایا کہ ریکوری کے وقت کا تخمینہ 3 ماہ لگایا گیا ہے مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی جارہی ہے اور یہ بھی تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کیا کچھ مردوں کی تولیدی صحت کو مستقل نقصان بھی پہنچ سکتا ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کی شدت کا مریض کے اسپرم کاؤنٹ میں کمی سے کوئی تعلق دریافت نہیں ہوا بلکہ معمولی بیمار ہونے والے اور زیادہ بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں دونوں کے اسپرم کا معیار بیماری سے متاثر ہوا۔
تحقیق کے مطابق مریضوں کے خون میں کووڈ 19 اینٹی باڈیز کی زیادہ مقدار اور اسپرم افعال میں کمی کے درمیان تعلق کو بھی دریافت کیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اولاد کے خواہشمند جوڑوں کو کووڈ 19 سے متاثر ہونے کے بعد اسپرم کے معیار کے حوالے سے خبردار رہنا چاہیے۔تحقیق میں شامل بیشتر افراد صحت مند تھے اور محض 16 کو پہلے سے مختلف امراض کا سامنا تھا جس سے کووڈ 19 کی شدت زیادہ ہونے کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
تحقیق میں شامل صرف 5 مردوں کو زیادہ بیمار ہونے کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا اور 2 کو آئی سی یو میں رکھا گیا۔
اس حوالے سے نومبر 2020 میں یونیورسٹی آف میامی ملر اسکول آف میڈیسین کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 سے مردوں کی قوت باہ (male fertility) پر ممکنہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیق کے دوران کورونا وائرس سے ہلاک ہوجانے والے 6 مردوں کے پوسٹمارٹم کے دوران دریافت کیا گیا کہ ان میں سے کچھ کے اسپرم کے افعال متاثر ہوئے تھے۔محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک مرد میں بھی وائرس کے آثار دریافت کیے جو بانجھ پن کے علاج کے عمل سے گزرا تھا اور کھ عرصے پہلے کووڈ 19 کا شکار تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس مریض میں کووڈ 19 کی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں بلکہ ٹیسٹ بھی نیگیٹو رہا تھا مگر ٹیسٹیرون میں وائرس کو دریافت کیا گیا۔محققین کا کہنا تھا کہ یہ قابل فہم ہے کہ کووڈ 19 مردوں کے اسپرم کے افعال کو ہدف بناتا ہے کیونکہ جس ریسیپٹر کی مدد سے وہ خلیات کو متاثر کرتا ہے، وہ جسم کے متعدد اعضا جیسے گردوں، پھیپھڑوں، دل اور اسپرم وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔
بعدازاں جنوری 2021 میں اٹلی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے مردوں کے اسپرم کا معیار متاثر ہوسکتا ہے، جس سے بانجھ پن کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے۔فلورنس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں کہا گیا کہ پہلی بار ایسے براہ راست شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کووڈ 19 سے اسپرم کا معیار اور مردوں کا تولیدی نظام متاثر ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق میں 30 سے 65 سال کی عمر کے 43 مردوں کے نمونے کووڈ 19 سے صحتیابی کے ایک ماہ حاصل کیے گئے اور ان کا تجزیہ کیا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ مردوں کا اسپرم کاؤنٹ 25 فیصد تک گھٹ گیا اور 20 کے قریب مردوں میں اسپرمز ہی موجود نہیں تھے، جو کہ دنیا کی عام آبادی کی شرح سے زیادہ ہے۔جرنل ہیومین ری پروڈکشن میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کی سنگین شدت کے باعث ہسپتال یا آئی سی یو میں داخل ہونے والے مریضوں میں اسپرم نہ ہونے کے برابر رہنے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔
جنوری 2021 کے آخر میں جرمنی کی Justus Liebig University Giessen کی تحقیق میں محققین نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کے شکار مردوں کے اسپرم سیلز میں ورم اور تکسیدی تناؤ میں نمایاں اضافہ ہوا اور دیگر افعال پر بھی کورونا وائرس سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ منفی اثرات وقت کے ساتھ بہتر ہوتے نظر آتے ہیں، مگر بیماری کی شدت جتنی زیادہ ہوتی ہے، اتنی ہی تبدیلیاں اندرونی افعال میں آتی ہیں۔محققین نے کووڈ 19 کے شکار مردوں میں ایس ٹو انزائمٹک ایکٹیویٹی کی بہت زیادہ شرح کو بھی دریافت کیا۔
خیال رہے کہ ایس ٹو وہ ریسیپٹر ہے جو کورونا وائرس کو خلیات کے اندر گھسنے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔
یعنی ابھی یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ کووڈ سے براہ راست ایسا ہوتا ہے یا ادویات یا کسی اور وجہ سے اسپرمز کے افعال متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے طبی ماہرین کی جانب سے مزید تحقیقی کام کیا جارہا ہے تاکہ ان سوالات کے جواب تلاش کیے جاسکیں۔