عام نزلہ زکام کے خلاف جسم کا قدرتی دفاع کووڈ 19 کے خلاف بھی کچھ حد تک تحفظ فراہم کرتا ہے۔طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع تحقیق میں 52 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو ایسے مریضوں کے ساتھ مقیم تھے جن میں حال ہی میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ عام نزلہ زکام کے بعد جسم میں بننے والے مخصوص مدافعتی خلیات یا ٹی سیلز نے مستقبل میں بیماری کی روک تھام میں مدد کی اور ممکنہ طور پر ٹی سیلز سے ہی کووڈ 19 سے بیمار ہونے کا خطرہ کم ہوا۔
مگر محققین کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی محض اس دفاع پر انحصار نہیں کرنا چاہیے اور ویکسینز ہی بیماری کے اثرات سے بچاؤ کی کنجی ہیں۔
مگر ان کا ماننا ہے کہ نتائج سے یہ کارآمد تفصیلات ملی ہیں کہ کس طرح جسمانی دفاعی نظم وائرس کے خلاف لڑتا ہے۔
اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ کووڈ 19 کورونا وائرس کی ایک قسم سے ہونے والی بیماری ہے اور کچھ دیگر کورونا وائرسز عام نزلہ زکام کا باعث بنتے ہیں، تو سائنسدان یہی جاننا چاہتے تھے کہ کسی ایک وائرس سے جسم میں پیدا ہونے والی مدافعت دوسرے کے خلاف کس حد تک کارآمد ہوتی ہے۔
امپرئیل کالج لندن کی اس تحقیق میں جسم کے مدافعتی نظام کے ایک اہم ترین حصے ٹی سیلز پر توجہ مرکوز کی گئی۔
کچھ ٹی سیلز ان تمام خلیات کو ختم کردیتے ہیں جو کسی مخصوص وائرس سے متاثر ہوں جیسے نزلہ زکام کا وائرس۔
ایک بار جب نزلہ زکام ختم ہوجاتا ہے تو کچھ ٹی سیلز جسم میں ایک میموری بینک کے طور پر موجود رہتے ہیں اور وائرس کے اگلے حملے سے نمنٹے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
ستمبر 2020 میں محققین نے 52 ایسے افراد پر تحقیقی کام شروع کیا جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی (اس وقت تک کووڈ ویکسینز متعارف نہیں ہوئی تھیں) مگر وہ حال ہی میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے افراد کے ساتھ رہ رہے تھے۔
تحقیق کے 28 روزہ دورانیے کے دوران 50 فیصد افراد کووڈ سے متاثر ہوگئے جبکہ باقی کو کچھ نہیں ہوا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے متاثر نہ ہونے والے ایک تہائی افراد کے خون میں مخصوص میموری ٹی سیلز کی تعداد کافی زیادہ تھی۔
یہ ٹی سیلز ممکنہ طور پر اس وقت بنے جب وہ اور ایک انسانی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے جو عام نزلہ زکام کا باعث بنتا ہے۔
محققین نے تسلیم کیا کہ دیگر عناصر جیسے ہوا کی نکاسی کا اچھا نظام اور گھر میں کووڈ کے مریض کا کم متعدی ہونا وغیرہ بھی نوول کورونا وائرس سے بچاؤ پر اثرانداز ہوئے۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ ایک چھوٹی تحقیق تھی مگر اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا مدافعتی نظام وائرس کے خلاف کیسے لڑتا ہے اور اس سے مستقبل کی ویکسینز کے لیے مدد مل سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈیٹا کو بڑھا چڑھا کر بیان نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا امکان نہیں کہ کووڈ سے ہلاک ہونے والا یا سنگین پیچیدگیوں کا سامنا کرنے والے ہر فرد کو کبھی نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرس کا سامنا نہیں ہوا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں نزلہ زکام کو کووڈ 19 سے تحفظ کا ذریعہ سمجھنا سنگین غلطی ہوگی کیونکہ نزلہ زکام کے 10 سے 15 فیصد کیسز کورونا وائرسز کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
محققین نے بھی ماہرین کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ویکسینز ہی تحفظ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ جسم کس طرح بیماریوں کے خلاف لڑتا ہے اس سے آگاہ ہونے سے نئی ویکسینز کی تیاری میں مدد ملے گی۔
موجودہ کووڈ ویکسینز میں کورونا وائرس کے باہر موجود اسپائیک پروٹین کو ہدف بنایا جاتا ہے مگر نئی اقسام میں یہ پروٹینز بدل رہے ہیں۔
محققین کے مطابق مگر جسم کے ٹی سیلز وائرس کے اندرونی پروٹینز پر حملہ آور ہوتے ہیں جو نئی اقسام میں بہت زیادہ نہیں بدلتے، جس کا مطلب ہے کہ ٹی سیلز کو زیادہ متحرک کرنے والی ویکسینز سے کووڈ کے خلاف دیرپا تحفظ مل سکے گا۔