یروشلم کے یونانی آرتھوڈوکس سربراہ نے بنیاد پرست اسرائیلی گروہوں پر شہر میں موجود مسیحیوں کو دھمکانے کا الزام لگایا ہےجسے اسرائیلی حکام بے بنیاد قرار دے رہے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ہفتے کو ٹائمز آف لندن میں شائع ایک کالم میں تھیوفیلس سوئم نے لکھا کہ ان کا خیال ہے کہ ان دھمکیوں کا مقصد مسیحی برادری کو یروشلم کے مقدس شہر سے بھگانا ہے۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے ساتھ پرانے شہر سمیت مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیاتھا، جنگ کے بعد اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو ایک ایسے اقدام کے تحت ضم کر لیا تھا جس کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔
یونانی آرتھوڈوکس کےکرسمس جشن کے ایک دن بعد شائع ہونے والے مضمون میں مسیحی پادری نے لکھا کہ ’یروشلم میں ہماری موجودگی خطرے میں ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’ہمارے گرجا گھروں کو اسرائیلی بنیاد پرست گروہوں سے خطرہ ہے، ان صہیونی انتہا پسندوں کے ہاتھوں یروشلم میں مسیحی برادری کو بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’ہمارے بھائی اور بہنیں نفرت انگیز جرائم کا شکار ہیں، آئے روزہمارے گرجا گھروں کی بے حرمتی اور توڑ پھوڑ کی جاتی ہے، ہمارے پادری اکثر دھمکیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔‘
انتہاپسندوں کو اسرائیلی قرار دینے پر تھیوفیلس کی تنقید کرسمس سے پہلے یروشلم میں دیگر گرجا گھروں کے سربراہان کی طرف سے جاری کیے گئے اجتماعی بیان سے بھی زیادہ ذاتی اور سخت سمجھی جارہی ہے۔
گرجا گھروں کے سربراہان کے بیان میں ’بنیاد پرست گروہوں کی طرف سے متواتر اور مستقل حملوں‘ کا ذکر کیا گیا تھا لیکن ان کی شناخت اسرائیلی کے طور پرنہیں کی گئی تھی۔
گزشتہ سال دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر شائع ہونے والی امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسیحی پادری اور زائرین یروشلم میں الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کی جانب سے ہراساں کرنے یا ان پر تھوکے جانے کے واقعات رپورٹ کرتے رہتے ہیں۔
شہر میں کچھ عرصے سے چرچ گروپس نے مذہبی مقامات پر توڑ پھوڑ کے حملوں کی اطلاع دی ہے، تھیوفیلس نے کسی بنیاد پرست گروہ پر نام لے کر الزام نہیں لگایا یا مخصوص واقعات کا حوالہ نہیں دیا، انہوں نے اس حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا کہ حملہ آور اسرائیلی تھے، یا ان کا مقصد مسیحیوں کو شہر سے بھگانا تھا۔
اتوار کے روز ایک اسرائیلی اہلکار نے وزارت خارجہ کی جانب سے 22دسمبر کو چرچ کے سابقہ رہنماؤں کے دعووں کی تردید میں دیے گئے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسیحی برادری کے لیے زمینی حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے جو مسیحی پادری نےبیان کی ہے۔
اپنے کالم میں تھیوفیلوس نے لکھا کہ جن بنیاد پرستوں پر انہوں نے تنقید کی ہے وہ ’ریاست اسرائیل یا یہودی عوام کے نمائندے نہیں ہیں‘، اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ یروشلم شہر یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی متنوع ’موزیک کمیونٹی‘ بنا رہے۔