پاني خدا کي ايک عظيم نعمت ہے جو کائنات ميں ايک طرح سے توازن قائم رکھنے ميں ايک کليدي کردار ادا کر رہا ہے – ہم يہ بھي کہہ سکتے ہيں کہ پاني کي بدولت زندگي رواں دواں ہے –
انساني جسم ميں بھي زيادہ تر پاني ہي ہے اور اس مقدار کو قائم رکھنے کے ليۓ ہميں روزانہ پاني کي ايک خاص مقدار پينے کي ضرورت ہوتي ہے – وہ لوگ جو زيادہ کام نہيں کرتے انہيں دن ميں چھ سے آٹھ گلاس پاني کي ضرورت نہيں ہوتي ہے – روزانہ آٹھ گلاس يا دو ليٹر پاني پينے کا مشورہ بہت عرصے سے ديا جا رہا ہے مگر ڈاکٹر کرس وين ٹيلکين پوچھتے ہيں کہ کيا اس کي کوئي سائنسي بنياد بھي ہے؟
اس سال کے شروع ميں آسٹريليا ميں کھيل پر تحقيق کرنے والے سائنسدانوں نے يہ جاننے کے ليے ايک غير معمولي تجربہ کيا کہ پاني کي کمي کھلاڑي کے کھيل پر کس طرح اثر انداز ہوتي ہے-
اس تجربے کے ليے انہوں نے سائيکل سواروں کے ايک گروپ کو اس وقت تک ورزش کرائي جب تک پسينے کے ذريعے ان کے جسم کا تين فيصد وزن کم نہيں ہوگيا-
اس کے بعد ان کي کارکردگي کو مزيد دو طريقوں سے پرکھا گيا- پہلے تب جب ان ميں دو فيصد پاني بحالي ہوگيا اور دوسرا تب جب ان ميں پاني کي مقدار بالکل متوازن تھي-
يہ اپني نوعيت کا پہلا تجربہ تھا کيونکہ اس ميں کھلاڑيوں کو پاني ڈرپ کے ذريعے ديا گيا اور انہيں يہ معلوم نہيں تھا کہ انہيں کتنا پاني ديا جا رہا ہے- يہ کرنا نہايت اہم تھا کيونکہ ہم سب کو اور خصوصاً کھلاڑيوں پر پاني پينے کا نفسياتي اثر ہوتا ہے-
انساني جسم پاني کي کمي کو تو برداشت کر ليتا ہے مگر پاني کي زيادتي خطرناک ثابت ہو سکتي ہے- حيرت انگيز طور پر وہ کھلاڑي جن ميں پاني کي مقدار متوازن تھي اور وہ جن ميں پاني کي کمي تھي ان سب کي پرفارمنس ايک جيسي تھي-
يہ تجربہ ’پياس ميں پيو‘ نامي ايک تحقيق کا حصہ ہے جس کي مدد سے کھلاڑيوں ميں اس بات کي آگاہي پيدا کي جا رہي ہے کہ وہ اپنے جسم ميں پاني کي مقدار کو غير ضروري طور پر نہ بڑھائيں کيونکہ اس سے ان ميں سوڈيم کي مقدار کم ہو جاتي ہے جس سے ’ہائي پون ايٹريميا‘ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے- مگرشايد يہ نتائج اتنے حيران کن نہيں ہيں- انساني ارتقا شديد دھوپ اور گرمي ميں ہي سخت ورزش سے ہوا ہے-
مگر آج کل ہميں کہا جاتا ہے کہ روزانہ آٹھ گلاس پاني پينا صاف جلد، تھکن ميں کمي اور ذہانت ميں اضافے کا باعث ہے- تو يہ بات کہاں سے آئي؟
حقيقت تو يہ ہے کہ وہ لوگ جو زيادہ کام نہيں کرتے انہيں دن ميں چھ سے آٹھ گلاس پاني کي ضرورت نہيں ہوتي اور صرف روز مرہ کے کھانے، شربت اور چائے سے ہي يہ اپني پاني کي ضرورت پوري کر ليتے ہيں-
اس بات کي کوئي سائسني حقيقت نہيں ہے کہ ہميں روزانہ آٹھ گلاس پاني کي ضرورت ہوتي ہے- اس تحقيق نے يہ بھي ثابت کيا ہے کہ انساني جسم خود اس بات کا تعين بہترين طريقے سے کر سکتا ہے کہ اسے کتنے پاني کي ضرورت ہے- اس ليے پاني اور آکسيجن کي مثال ايک جيسي ہے- آپ صرف اتني آکسيجن ليتے ہيں جتني کي آپ کو ضرورت ہوتي ہے- بالکل اسي طرح اگر آپ ضرورت سے زيادہ پاني پيئيں گے تو اُس کا آپ کو کوئي فائدہ نہيں ہوگا اور وہ آپ کے جسم سے خارج ہو جائے گا – بعض بيماريوں کي صورت ميں مريض کو زيادہ پينے کا مشورہ ديا جاتا ہے مثلا جن افراد کو گردے ميں پتھري ہوتي ہے – ايسي صورت ميں پاني کے زيادہ استعمال سے مريض کا نظام اخراج زيادہ کام کرتا ہے ، پاني کي زيادہ ترسيل ہوتي ہے اور پتھري کو باہر نکالنے ميں معاون ثابت ہو سکتا ہے –