متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین اپنے خلاف دہشت گردی کے جرم سے متعلق .ٹرائل کے پہلے روز کنگسٹن اپون تھیمز کراؤن کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الطاف حسین پر 22 اگست 2016 کو لندن سے کی گئی اپنی ایک تقریر کے ذریعے پاکستان میں اپنی پارٹی کے کارکنوں کو تشدد پر اکسانے کا الزام ہے۔
الطاف حسین کو 2019 میں فرد جرم عائد ہونے سے پہلے گرفتار اور پھر ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا ، اسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے مبینہ طور پر کراچی میں تشدد کو ہوا دینے کے لیے برطانیہ سے کی گئی تقریر کی تحقیقات شروع کرنے کے 3 سال بعد فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
الطاف حسین نے دہشت گردی ایکٹ (ٹی اے سی ٹی) 2006 کے سیکشن ون (2) کے تحت ان پر عائد کردہ الزامات سے بے قصور قرار دینے کی درخواست دی ہے۔
68 سالہ الطاف حسین عدالت کے سامنے اعتماد اور پر جوش انداز میں پیش ہوئے، جب وہ احاطہ عدالت میں داخل ہوئے اس وقت ان کے ساتھ لندن میں موجود ان کی پارٹی کے ورکرز اور رشتے دار بھی موجود تھے، اپنی گاڑی سے اترنے کے بعد انہوں نے رپورٹرز سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں برطانوی نظام انصاف پر اعتماد ہے لیکن میں ٹرائل سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کروں نہیں کروں گا کیونکہ معاملہ عدالت میں زیر ساعت ہے، وہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر عدالت کے اندر داخل ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنی 45 سالہ جد وجہد کے دوران میں کئی مرتبہ اس طرح کی کئی مشکلات اور امتحانات کو برداشت کرچکا ہوں، اللہ نے مجھے طاقت دی اور میں ثابت قدم رہا ،میں کبھی بڑے سے بڑے چینلج کے دوران بھی مایوس نہیں ہوا اور نہ ہی میں آج مایوس ہوں، میں اپنے سپورٹرز سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مشکل وقت میں افواہوں پر توجہ نہ دیں، بس متحد رہیں اور دعا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی موجودہ صورتحال میں کیا ہوگا، کیا نہیں ہوگا، اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، میں نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ چاہے کوئی سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت ہو، بس پاکستان کے سب سے بڑے معاشی شہر کی ترقی اور امن کے لیے کام ہونا چاہیے۔
اپنی صحت سے متعلق سوال کے جواب میں الطاف حسین کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے شروع میں کورونا سے متاثر ہونے کے بعد سے وہ زیادہ بہتر محسوس نہیں کر رہے۔
جیوری کے انتخاب کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی ججز (جسٹس مے ) کے سامنے آئندہ روز حلف اٹھائیں گے،کووڈ 19 کی پابندیوں اور سماجی دوری کے قوانین کی وجہ سے کمرہ عدالت میں نشستوں کی تعداد محدود تھی۔
برطانوی پولیس کی جانب سے عائد کردہ الزامات کے مطابق 22 اگست 2016 کو الطاف حسین نے کراچی میں موجود ایک مجمعے سے خطاب کیا۔
خطاب مجمعے عوام کے کچھ یا تمام ممبران نے سمجھا، جس میں انہوں نے سننے والوں کو براہ راست یا بالواسطہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے یا ان کارروائیوں کی تیاری کے لیے اکسایا اور جس وقت الطاف حسین نے یہ تقریر کی، اس وقت ان کا ارادہ مجمعے کی پرتشدد کارروائیوں کے لیے حوصلہ افزائی کرنا تھا یا وہ وہ بلکل بے واہ تھے کہ ان کی تقریر سے مجمعے میں موجود لوگوں کی پرتشدد اقدامات پر حوصلہ افزائی ہوگی۔
میٹ پولیس کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کو جان بوجھ کر حوصلہ افزائی یا مدد کرنے کے الزام پر سنگین جرائم ایکٹ 2017 کے سیکشن 44 کے تحت 11 جون 2019 میں گرفتار کیا گیا تھا، ان کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا جس کے بعد ان پر مندرجہ بالا فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
ان کی ضمانت کی شرائط میں ان پر تقاریر کرنے پر پابندی اور ہر رات کے کچھ حصے میں اپنی رہائش گاہ پر رہنا شامل ہے، اور ان پر کسی قسم کے سفری دستاویزات کے حصول کے لیے اپلائی کرنے سے بھی روک دیا جائے گا اور ان کا پاسپورٹ پولیس کی تحویل میں رہے گا۔
بانی ایم کیو ایم 90 کی دہائی کے اوائل سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، بعد میں ان کو برطانوی شہریت دے دی گئی تھی، لندن سے باقاعدگی کے ساتھ اپنے کارکنوں سے سیاسی تقاریر کے ذریعے الطاف حسین نے کراچی کی سیاست میں متحرک کردار ادا کیا۔