اکثر مائیں اپنی اولاد کو اپنا دودھ پلانے سے گریز کرتی ہیں اور پھر بعدمیں یہ شکایت بھی کرتی ہیں کہ ہمارا بچہ یا بچی ماں باپ سے محبت نہیں کرتا۔ سائنسی اْصول سے قطع نظر، ماں کو اولاد سے جوڑنے کیلئے ماں کا دودھ سب سے زیادہ اہم رول ادا کرتا ہے۔ البتہ اگر مائیں اپنی اولاد کو دودھ پلانے کے وقفہ میں تخفیف کرنا چاہتی ہیں، تو وہ ایسا کرسکتی ہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان کے سرپر دیگر گھریلو اور سماجی ذمہ داریاں ہوں تاہم بچوں کو سرے سے اپنا دودھ ہی نہ پلانا، یہ بچے کے ساتھ واقعتاً ناانصافی اور اْسے اس کے حق سے محروم کردینے کے مترادف ہے۔یاد رہے کہ بچوں کو ابتدائی دو ڈھائی سال تک ماں کے دودھ کی اشد ضرورت ہے جو اس کی بنیادی نشوونما کیلئے ضروری ہے اور اگر بچے کو اس کی ابتدائی نشوونما سے ہی محروم کردیا گیا تو آگے چل کر اس کی صحت کی کیا ضمانت ہوسکتی ہے۔ لندن کی ماہر تغذیہ میری رانیسن کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں بھی خواتین اب اپنا دودھ پلانے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایشیائی ممالک میں ماں کا بچے کے س
اتھ جو اٹوٹ بندھن اور پیار ہوتا ہے اس کی وجہ ماں کا دودھ ہی ہے۔
بچے کو اگر پیدائش کے بعد سے ہی ڈبے کا دودھ دیا جانے لگا تو اسے اپنی ماں سے فطری لگاؤ نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف صحت کے نقطہ نظر سے بھی بچوں کو کم سے کم ابتدائی چھ ماہ کے دوران ماں کا دودھ ہی دیا جانا چاہئے اور اس کے سوا کچھ نہیں ہر ماں یہ چاہتی ہے کہ اس کا بچہ صحت مند ہو لیکن بچے کی صحت کیلئے ضروری خود اپنا دوھ پلانے سے گریز کرتی ہیں لہذا بچوں کو دودھ پلانا نہ صرف بچوں کی صحت بلکہ ماؤں کی صحت کیلئے بھی فائدہ مند ہے جس سے پستانوں کے کینسر کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔