روس کے حملے کے بعد یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی مخالف کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار کوئی گن یا بم نہیں بلکہ ایک عام سی چیز ثابت ہوئی ہے۔
اور وہ ہے ٹیلیفون۔
جی ہاں روسی فوج کی جانب سے دارالحکومت کیف کے محاصرے کے دوران ولودیمیر زیلنسکی نے لگاتار فون کالز کرکے مغرب کو روسی کے خلاف مختلف پابندیوں کے نفاذ کے لیے رضامند کیا، جس کی ایک ہفتے قبل توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔
اپنے عوام کے لیے یورپین شہریوں کی رائے کا احساس کرتے ہوئے یوکرینی صدر نے مغربی رہنماؤں سے فون پر رابطے کیے، اپنی ٹوئٹر فیڈ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اتحادیوں کی حوصلہ افزائی، ستائش، چاپلوسی اور انہیں برا بھلا کہا۔
اس عمل کے دوران جو پابندیاں ایک ہفتے قبل ناقابل تصور تھیں، وہ ایک اخلاقی بنیاد بن گئیں۔
حکام نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جس رفتار سے مغرب نے نئی پابندیوں پر اتفاق کیا، اس نے وکلا، حکام اور بینکرز کی سانسیں روک دیں، کیونکہ انہیں شدید دباؤ میں کام کرتے ہوئے شہہ سرخیوں کو حقیقت بنانا پڑا۔
ایک رہنما کے دفتر نے بتایا ‘ہم یوکرینی صدر کو سراہتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ وہ یوکرین کو بچا نہ سکیں یا روس کو بدلنے میں ناکام رہیں، مگر وہ یورپ کو بدل رہے ہیں’۔
26 فروری کو یوکرینی صدر نے کہا کہ انہوں نے ایک اور سفارتی محاذ فون پر کھولا اور فرانس کے صدر کو کال سے آغاز کیا۔
جیسے جیسے دن آگے بڑھا انہوں نے یورپین کمیشن کے صدر، اٹلی کے وزیراعظم، سوئٹزر لینڈ کے صدر، بھارت کے وزیرعظم، ترکی کے صدر، آذربائیجان کے صدر، ڈچ وزیراعظم، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، جرمنی کے چانسلر، پوپ، چیک ری پبلک کے وزیراعظم، پولینڈ کے وزیراعظم اور سب سے آخر میں برطانیہ کے وزیراعظم سے بات کی۔
اس سے ایک دن قبل بھی اسی طرح کالز کیں اور پوری توجہ ہتھیاروں کی فراہمی اور سخت پابندیوں پر مرکوز کیں۔
کس طرح انہوں نے یہ کالز کیں، ریاست کے امور سرانجام دیئے، فوج کو ہدایات دیں اور پھر نیند کے لیے بھی وقت نکالا، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔
مگر ذرائع نے بتایا ‘وہ بہت پرجوش، صاف گو اور عملی انسان ہیں’۔ان کالز سے یوکرینی صدر کو رائے اپنے حق میں کرنے میں نمایاں مدد ملی۔
اکثر جنوبیوں میں سماجی تبدیلیوں کی رفتار کافی تیز ہوتی ہے مگر جرمنی نے ایک ہفتے میں جس طرح 180 ڈگری کا ٹرن لیتے ہوئے یوکرین کو اسلحے کی فروخت، جی ڈی پی کے 2 فیصد حصے کو دفاع پر خرچ کرنے اور روس سوئفٹ نظام سے روس کو نکالنے پر اتفاق کیا، وہ نہ صرف پالیسیوں میں غیرمعمولی تبدیلیاں ہیں بلکہ یہ دوسری جنگ عظیم کی ذہنیت میں تبدیلی کا اشارہ بھی ہے۔
اسی طرح اٹلی نے بھی طویل المعیاد حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت پڑی تو اٹلی روسی گیس کی خریداری روک دے گا۔
اطالوی وزیراعظم کے دفتر نے تسلیم کیا کہ یوکرینی صدر کی سوجھ بوجھ اور روس کے غرور نے ممالک جیسے برطانیہ، کینیڈا اور فرانس نے دیگر کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ وہ روس کو سوئفٹ پیمنٹ سسٹمز سے نکال باہر کریں۔
مگر جس سب سے تباہ کن قدم پر غور کیا گیا وہ یوکرینی صدر کی مسلسل لابنگ کا براہ راست نتیجہ نہیں تھی۔
کچھ یورپی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ روس کے مرکزی بینک کے اثاثوں کو غیرمتوقع طور پر منجمد کرنا، جو روس کا سب سے اہم مالیاتی ادارہ ہے، روسی معیشت کو ہلا کر رکھ دے گا۔
ایک یورپی عہدیدار نے تسلیم کای کہ یوکرینی فوج کی جانب سے خود سے زیادہ طاقتور روسی فوج کو روک پانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، مگر حقیقی مقصد وہ سیاسی اور معاشی قیمت ہے جو روس کے صدر ولادیمیر پیوٹین کو چکانا پڑے گی جس سے انہیں احساس ہوگا کہ وہ اپنی شرائط پر جیت نہیں سکتے۔