چین میں 90 لاکھ سے زائد آبادی کے شہر چینگ چُن میں کورونا وبا کے پھیلاؤ کے سبب حکام نے لاک ڈاؤن کا حکم دے دیا ہے اور اسکولز بند کر دیے ہیں۔ڈان اخبار میں شائع خبررساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق شمال مشرقی صوبے جیلن کے دارالحکومت اور ایک اہم صنعتی اڈے چینگ چن میں شہری حکام نے شہریوں کو گھر پر رہنے کا حکم دیا اور روز مرہ ضروری اشیا کے لیے ہر 2 دن میں ایک شخص کو خریداری کی اجازت دی ہے۔
حکام نے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی مکمل بند کردی ہے، اسکولوں اور کاروباروں کو بند رکھنے کا حکم دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر کوونا ٹیسٹنگ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
2020 میں کورونا وبا کے ابتدائی دنوں کے بعد رواں ہفتے پہلی بار چین میں کورونا وائرس کے یومیہ کیسز کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی۔
صرف 3 ہفتے قبل شہر میں کورونا کے یومیہ کیسز کی تعداد محض 100 تھی لیکن انتہائی تیزی سے پھیلنے والا ویرینٹ اومیکرون وبا سے نمٹنے کے لیے چین کی ’زیرو کووِڈ اپروچ‘ کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
2019 کے آخر میں کورونا وبا پہلی بار چین میں سامنے آئی لیکن چینی حکومت نے اسنیپ لاک ڈاؤن، بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ اور بڑی حد تک سرحدوں کی بندش کے ذریعے کورونا کیسز کی شرح کو انتہائی کم رکھنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
روزانہ کے حکومتی اعداد و شمارکے مطابق گزشتہ روز ایک درجن سے زائد صوبوں میں ایک ہزار 369 کیسز سامنے آئے۔
بیجنگ اور شنگھائی جیسے بڑے شہروں سمیت جیلن بھی ان درجن سے زائد صوبوں میں سے ایک ہے جہاں حالیہ دنوں میں سیکڑوں کیسز رپورٹ ہوئے۔حالیہ دنوں میں مشرقی اقتصادی مرکز میں درجنوں کیسز سامنے آنے کے بعد شنگھائی نے اسکولوں بند اور آئندہ حالات کے پیش نظر آن لائن کلاسز پر منتقلی کا حکم دیا ہے۔
کیسز میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے اعلان کیا کہ وہ تیز رفتار اینٹیجن ٹیسٹ کا استعمال متعارف کرائیں گے۔
ہیلتھ کمیشن نے کہا کہ کٹس اب آن لائن یا فارمیسیز میں کلینکس اور عام شہریوں کے لیے دستیاب ہوں گی تاکہ وہ خود ٹیسٹ کے لیے کٹس خرید سکیں، تاہم نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ ہی جانچ کا بنیادی طریقہ کار رہے گا۔
چینی حکومت نے اپنے وسائل کا بڑا حصہ کورونا وبا پر قابو پانے کی صلاحیت بہتر بنانے پر لگایا لیکن تازہ اقدامات سے یہ کوششیں ناکافی دکھائی دیتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کسی بھی وقت جلد ہی اپنی متنازع ’عدم برداشت کی پالیسی‘ کو ختم کر دے گا۔
ہانگ کانگ میں ’زیرو کوویڈ اپروچ‘ میں خامیاں سامنے آئی ہیں، جہاں مقامی حکومت کے مبہم پیغامات نے اشیا خورونوش کی ذخیرہ اندوزی کو ہوا دی اور عوام میں خوف پیدا ہوا کہ وہ محصور ہوجائیں گے۔
چین کا حالیہ سب سے بڑا لاک ڈاؤن دسمبر میں نافذ ہوا جب ژیان شہر میں وبا کی وجہ سے ایک کروڑ 30 لاکھ شہری 2 ہفتوں تک گھروں میں محصور رہے۔لیکن بڑھتی ہوئی وبائی فٹیگ (تھکاوٹ) کے پیش نظر اعلیٰ چینی حکام نے حالیہ ہفتوں کے دوران ملک بھر کے مقامی حکام پر زور دیا کہ وہ ایسے سخت اقدامات سے گریز کریں۔
فروری کے آخر سے کیسز میں اضافہ ہونے کے بعد متاثرہ علاقوں میں صرف نسبتاً نرم یا انتہائی مخصوص اقدامات کیے گئے ہیں۔
تاہم شنگھائی میں وبا کے پھیلاؤ کے خدشات کے پیش نظر حکام تیزی سے مخصوص اسکولوں، کاروباروں، ریسٹورنٹ اور مالز کو فوری طور پر بند کررہے ہیں۔