واشنگٹن: ایرانی جوہری معاہدے کو رواں ہفتے کے اوائل میں حتمی شکل دی جا سکتی ہے کیونکہ تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں نے مغرب کو روس کے علاوہ دیگر ممالک کی جانب رجوع پر مجبور کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے اخبار انڈیپنڈنٹ نے ہفتے کے روز عالمی معاہدے کے مذاکرات میں شریک ایک سینئر عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی معاہدہ 48 گھنٹوں کے اندر طے پا سکتا ہے۔
دیگر رپورٹس میں کوئی مخصوص تاریخ نہیں بتائی گئی لیکن دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی جلد از جلد معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
دی انڈیپنڈنٹ نے مزید کہا کہ پہلی بار 2005 میں طے پانے والے معاہدے کی بحالی سے ایران پر پابندیوں کے خاتمے کی راہ ہموار ہو جائے گی جس سے وہ مغربی ممالک کو تیل کی برآمدات میں اضافہ کر سکے گا کیونکہ اس وقت اکثر ممالک توانائی کی فراہمی کے حوالے سے روس پر انحصار کو روکنا چاہتے ہیں۔
ویانا میں ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سہولت کار کے طور پر کام کرنے والے آئرش وزیر خارجہ سائمن کووینی نے ایک اور برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ معاہدے کے لیے مثبت اشارے ملے ہیں۔
سائمن کووینی نے بی بی سی ریڈیو 4 کو بتایا کہ ہم ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں، درحقیقت کچھ لوگ کہیں گے کہ اس ہفتے کے آخر میں یا اس کے فوراً بعد ڈیل کے امکانات موجود ہیں۔
آئرش وزیر خارجہ نے وضاحت کی کہ روس کے تیل اور گیس کے حوالے سے مغربی یورپ پر انحصار سے نکلنا چاہتا ہے اور دوسرے آپشنز کی تلاش میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ایرانی خام تیل کی مارکیٹ میں واپسی کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتوں پر دباؤ کو کم کرنے کے حوالے سے ایک بہت پرکشش امکان ہو گا۔
ایک امریکی ٹیلی ویژن چینل سی این بی سی نے نوٹ کیا کہ امریکا روسی تیل کی درآمدات ختم اور یورپی یونین ماسکو پر توانائی کے انحصار کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہے لہٰذا ایرانی خام تیل مزید بہتر آپشن نظر آرہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2015 کے معاہدے کی بحالی کے نتیجے میں ایرانی تیل کی مارکیٹ میں واپسی ایک ایسے وقت میں ہوگی جب خام تیل کی قیمت ایک دہائی سے زائد عرصے میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
جوہری معاہدے میں شامل ویانا میں ایک معاہدے کے قریب تھے تاہم امریکا اور یورپی یونین نے 14 فروری کو یوکرین پر حملہ کرنے کے سبب روس پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
اس کے بعد روس نے مطالبہ کیا تھا کہ ایران کے ساتھ مستقبل کی تجارت مغربی پابندیوں سے متاثر نہیں ہونی چاہیے جس کی وجہ سے گزشتہ ہفتے مذاکرات معطل ہو گئے تھے۔
اپنے حالیہ بیانات میں ایرانی حکام نے عندیا دیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ جوہری معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے امریکا پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کرنے کے اپنے اقدام کو واپس لے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار سے جب اس پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس حوالے سے عوامی سطح پر بات چیت نہیں کر رہے لہٰذا اس بارے میں مخصوص دعوؤں کا جواب نہیں دوں گا کہ معاہدے کی بحالی کے لیے کن پابندیوں کو اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔