ممبئی(وارتا)بالی ووڈمیں فاروق شیخ کا شمار ایک ایسے اداکار کے طورپر کیا جاتا ہے۔جنھوںنے مساوی سنیما کے ساتھ ہی کامرشیل سنیمامیںبھی ناظرین کے درمیان ا پنی خاص شناخت قائم کی۔ فاروق شیخ کی پیدائش ۲۵مارچ ۱۹۴۸کوزمیندارگھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد مصفیٰ شیخ ممبئی میں مشہور وکیل تھے۔ فاروق شیخ نے اپنی ابتدائی تعلیم ممبئی کے سینٹ میری اسکول سے مکمل کی ا س کے بعد انھوں نے ممبئی کے ہی سینٹ جیویرس کالج سے آگے کی تعلیم مکمل کی۔ اس درمیان فاروق شیخ نے سدھارتھ کالج سے وکالت کی تعلیم پوری کی اورانھوں نے پونے فلم انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد وہ اپٹا سے وابستہ ہوگئے اورساگرسرحدی کی ہدایت میں بنے کئی ڈراموں میں اداکاری کی۔ ۷۰ کی دہائی میں بطوراداکار فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت قائم کرنے کیلئے فاروق شیخ نے ممبئی میں قدم رکھ دیا۔ ۱۹۷۳میںآئی فلم گرم ہوا سے انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کی شروعات کی ۔ یوں تو پوری فلم اداکار بلراج ساہنی پر مبنی تھی لیکن فاروق شیخ ناظرین کے درمیان اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب رہے۔فاروق شیخ ممبئی میںتقریباًچھ سال تک جدوجہد کرتے رہے۔ یقین دہانی تو سبھی کراتے لیکن انھیں کام کرنے کا موقع کوئی نہیں دیتا تھا۔ حالانکہ اس درمیان انھیں مشہور ڈائریکٹر ستیہ جیت رے کی فلم شطرنج کے کھلاڑی میں کام کرنے کا موقع ملا لیکن انھیں کچھ خاص فائدہ نہیںہوا۔ فاروق شیخ کی قسمت کا ستارہ فلمساز ہدایت کار یش چوپڑاکی ۱۹۷۹میںآئی فلم نوری سے چمکا۔ بہترین نغمے ، موسیقی اور اداکاری سے آراستہ اس فلم کی کامیابی نے نہ صرف انھیں بلکہ اداکارہ پونم ڈھلوں کو بھی اسٹارکے طورپر مستحکم بنادیا۔ فلم میں لتا منگیشکر کی آواز میں آجا رے آجارے میرے دلبرآجانغمہ آج بھی ناظرین کا دل جیت لیتاہے۔ ۱۹۸۱میں فاروق شیخ کے فلمی کیریئر کی ایک اوراہم فلم امرائوجان ریلیز ہوئی۔ مرزاہادی رشواکے مشہور اردوناول پر مبنی اس فلم میں انھوں نے نواب سلطان کا کردارادا کیاجو امرائو جان سے محبت کرتاہے اپنے اس کردار کو فاروق شیخ نے اتنی سنجیدگی سے اداکیا کہ فلم شائقین آج بھی اسے بھول نہیں پائے ہیں اس فلم کے نغمے آج بھی ناظرین کو دیوانہ بنادیتے ہیں۔ خیام کی موسیقی میںآشابھونسلے کی آواز میں نغمہ ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں، دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجئے آج بھی ناظرین کے درمیان شدت کے ساتھ سنے جاتے ہیں۔ اس فلم کیلئے آشابھونسلے کو اپنے کیریئر کا پہلا قومی ایوارڈ اورخیام کو بہترین موسیقار کا قومی ایوارڈ بھی ملا۔
۱۹۸۱میں فاروق شیخ کے فلمی کیریئر کی ایک اورسپرہٹ فلم چشم بدورریلیز ہوئی۔ سئی پرانجپے کی ہدایت میں بنی اس فلم میں فاروق شیخ کی اداکاری کانیا رنگ دیکھنے کو ملا۔ اس فلم سے پہلے ان کے بارے میں یہ رجحان تھا کہ وہ صرف سنجیدہ کرداراداکرنے کی ہی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس فلم میں انھوں نے اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کا دل جیت لیا۔ ۱۹۸۲میںفاروق شیخ کے فلمی کیریئر کی ایک اوراہم فلم بازار ریلیز ہوئی ۔ ساگر سرحدی کی ہدایت میںبنی اس فلم میں بنی ان کے سامنے مشہوراداکارہ اسمیتاپاٹل اورنصیرالدین شاہ جیسے اداکارتھے اس کے باوجود وہ اپنے کردارکے ذریعہ ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ۱۹۸۳ میںفاروق شیخ کو ایک بار پھر سے سئی پرانجپے کی فلم کتھا میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم کی کہانی میں جدید کچھوے اورخرگوش کے درمیان ریس کی لڑائی کو دکھایا گیاتھا۔ اس میں فاروق شیخ خرگوش کے کردار میں دکھائی دئے جب کہ نصیر الدین شاہ کچھوے کے کردار میں تھے اس فلم میں فاروق شیخ نے کچھ حدتک منفی کرداراداکیا ۔ اس کے باوجود وہ ناظرین کا دل جیتنے میں کامیاب رہے۔ ۱۹۸۷میںآئی فلم بیوی ہو تو ایسی ہیرو کے طورپر فاروق شیخ کے فلمی کیریئر کی آخری فلم تھی اس فلم میںانھوںنے اداکارہ ریکھا کے ساتھ کام کیا۔ ۹۰کی دہائی میں اچھے کردار نہ ملنے پر شیخ نے فلموںمیں کام کرنا کافی حدتک کم کردیا۔ ۹۰کی دہائی میںفاروق شیخ نے ناظرین کی پسند کو دیکھتے ہوئے چھوٹے پردے کا بھی رخ کیااورکئی سیریلوںمیں مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کی تفریح کی۔ ان سب کے
ساتھ ہی جینا اسی کا نام ہے۔ میں بطورمہمان اداکار انھوں نے ناظرین کی بھرپور تفریح کی۔ ۱۹۹۷میںآئی فلم محبت کے بعد تقریباًدس سال تک فلم انڈسٹری سے کنارہ کشی کرلی۔ فاروق شیخ کے فلمی کیریئر میں ان کی جوڑی اداکارہ دیپتی نول کے ساتھ کافی پسند کی گئی۔۱۹۸۱میں آئی ہندوستانی سنیمامیں فاروق شیخ ان چنداداکاروںمیںشامل ہیں جو فلم کی تعداد کے بجائے اس کے معیار پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے چاردہائی کے فلمی کیریئر میںتقریباًچالیس فلموں ہی کام کیا ہے اپنی بہترین اداکاری سے ناظرین کا دل جیتنے والے فاروق شیخ ۲۷دسمبر۲۰۱۳کو اس دنیا کوالوداع کہہ گئے۔