اقوام متحدہ کے عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان لڑکیوں کے لیے دوبارہ اسکول نہیں کھولتے ہیں تو انہیں ناقابل فراموش بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رپورٹ کے مطابق 7 ماہ قبل اقتدار سنبھالنے والے سخت گیر اسلامی گروپ کے حکومت میں آنے کے بعد پہلی بار لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول کھولنے کا حکم دیا گیا تاہم چند گھنٹوں بعد ہی فیصلہ واپس لے لیا گیا جس نے غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے سربراہ اکیم اسٹینر نے خبردار کیا کہ لڑکیوں کی اسکول کی کلاسز شروع کرنے میں مزید تاخیر کرنا ان کے مستقبل کے لیے نقصاندہ ہوسکتا ہے، لیکن افغانستان یہ خطرات مسلسل نظر انداز کر رہا ہے۔
کابل کے دو روزہ دورے کے اختتام میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اہم وقت ہے جس میں دنیا کے لیے ضروری ہے وہ افغانستان کو سمجھے، یہ ہمارے اور اقوام متحدہ کے لیے ضروری ہے‘۔
اکیم اسٹینر نے کہا کہ ’افغانستان کی قیادت کو بھی یہ تسلیم کرلیا چاہیے کہ دنیا آسانی سے دیگر بحرانوں میں تبدیل ہوسکتی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسکول دوبارہ کھولنے میں مزید کوئی ’تکنیکی رکاوٹیں‘ پیدا کی گئیں تو اقوام متحدہ اس مسئلے کو ’اولین ترجیح‘ سمجھتے ہوئے حل کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ اگر مزید بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کا اشارہ ملا تو میرا خیال ہے کہ ایک اس طرح سے بین الاقوامی برادری اور افغانستان دونوں کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی‘۔
طالبان کی جانب سے ڈرامائی یوٹرن کی وجہ نہیں بتائی گی لیکن سینیئر رہنما سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ اس معاملے کچھ ’عملی مسائل‘ ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی برادری نے افغانستان کو دی جانے والی کسی بھی غیر ملکی امداد اور طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے خواتین کے کام اور تعلیم کے حق کو کلیدی شرط قرار دیا ہے۔
طالبان کی حکومت کی جانب سے 1996 سے 2001 کے دوران اختیار کیے گئے سخت رویے کے بجائے موجودہ دورِ اقتدار میں نرمی کا وعدہ کیا گیا تھا۔
تاہم اقتدار سنبھالنے کے بعد حکومت کی جانب سے خواتین تقریباً تمام سرکاری نوکریوں سے برطرف کرتے ہوئے انہیں طالبان کی سخت تشریخ کے مطابق لباس پہننے کا حکم دیا گیا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز میں طالبان حکومت نے افغانستان ائیر لائن کو حکم دیا کہ بغیر ’محرم‘ خواتین کو جہاز میں سوار ہونے کی اجازت نہیں دی جائے۔
قبل ازیں طالبان کی جانب سے خواتین پر شہر میں اکیلے سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔
مغربی حمایت یافتہ سابقہ حکومت تقریباً 20 سال افغانستان میں برسرِ اقتدار رہی، بین الاقوامی امداد پاکستان کی جی ڈی پی کی 40 فیصد نمائندگی کرتی ہے جبکہ اس کے بجٹ کی 75 سے 80 فیصد معاون کرتی ہے۔